امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال ایک نیا سپر کمپیوٹر ’ٹائی ٹن‘ متعارف کرارہے ہیں جو دنیا کا سب سے تیز رفتار کمپیوٹر ہوگا۔ اس وقت دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر چین کے پاس ہے،جسے 2010ء میں تیز ترین سپر کمپیوٹر بنانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
جس رفتار سے ڈیجٹل ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے، اس کے پیش نظر ماہرین کا کہناہے کہ چند سال کے بعد آج کے بڑے بڑے سپر کمپیوٹروں کے مقابلے میں عام لیپ ٹاپ زیادہ تیز رفتار ہوں گے اور ان پر آج کے سپر کمپیوٹروں کی نسبت زیادہ ڈیٹا پراسسنگ کی جاسکے گی۔
سپر کمپیوٹر پہلے پہل 1960ء کے عشرے میں کنٹرول ڈیٹا کارپوریشن نے متعارف کرائےتھے۔ تاہم 1980 کی دہائی میں کئی اور کمپنیاں بھی اس میدان میں آگئیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں استعمال ہونے والے سپر کمپیوٹروں سے آج کے موبائل فونز کے مائیکرو پراسیسرز زیادہ تیز رفتار ہیں۔
سائنس کی اصطلاح میں سپر کمپیوٹر اس ڈیجیٹل مشین کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے انتہائی تیزی کے ساتھ اعدادوشمار اور معلومات کی پراسسنگ کی جاسکے۔ تیز رفتار پراسسنگ کی زیادہ تر ضرورت جوہری سائنس، موسم کی پیش گوئیوں ، دفاع اور خلائی سائنس کے شعبوں میں پڑتی ہے۔تاہم اب زندگی کی تیزرفتاری نے زندگی کےاکثر شعبوں کو سپر کمپیوٹر کا محتاج بنا دیا ہے۔
امریکہ میں شاید ہی کوئی یونیورسٹی ایسی ہو جہاں سپر کمپیوٹر نصب نہ ہوں۔ تعلیمی اداروں کے سپر کمپیوٹرز سائنسی تجربات کے تجزیوں اور تحقیقی کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
سپر کمپیوٹر عام کمپیوٹر سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ چند عشرے قبل تک ایک سپر کمپیوٹر کی تنصیب کے لیے بہت بڑی عمارت درکار ہوتی تھی اور وہ بہت وزنی ہوتا تھا۔ تاہم جیسے جیسے ڈیجٹل آلات کے سائز مختصر ہورہے ہیں، کمپیوٹر ز کا جحم بھی کم ہوتا جارہاہے۔ اس کااندازہ ا س چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل آپ کے گھر میں کسی میز پر جو ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر رکھا ہوا ہے، اس کی قوت اور صلاحت اور رفتار ، 80 کے عشرے کے ان سپرکمپیوٹروں سے کہیں بہتر ہے جنہیں بڑے بڑے کمروں میں نصب کیا گیاتھا۔
عام کمپیوٹر میں پراسسنگ کے لیے ایک مائیکروپراسیسر ہوتاہے۔ آج کے اکثر کمپیوٹروں میں ایسے مائیکروپراسیسر نصب ہوتے ہیں جن کی کم ازکم دو، یا چار یا اس سے زیادہ پرتیں ہوتیں ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں ایک وقت میں کمپیوٹر میں ایک سے زیادہ مائیکروپراسیسر کام کررہے ہوتے ہیں۔ جب کہ سپر کمپیوٹروں میں انتہائی تیزرفتار مائیکروپراسیسرز کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہے۔
ان دنوں امریکی سائنس دان جس سپر کمپیوٹر کے ڈائزئن پر کام کررہے ہیں ، اس میں یہ صلاحیت موجود ہوگی کہ وہ ایک سیکنڈ میں ریاضی کے دولاکھ کھرب سوال حل کرسکے۔
ماہرین کا کہناہے کہ اس وقت چین میں نصب دنیا کا تیزترین سپر کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں ریاضی کے 25 ہزار کھرب سوال حل کرسکتا ہے۔
ایک عام کیلکولیٹر کمپیوٹر کی سادہ ترین ابتدائی شکل ہے جس پر ایک وقت میں صرف ایک سوال حل کرکیا جاسکتا ہے۔ جب کہ عام کمپیوٹر پر آپ ایک ساتھ درجنوں فائلیں کھول کر ان پر بیک وقت کام کرسکتے ہیں۔
اگر سپر کمپیوٹر کی کارکردگی کو انسانی صلاحیت کے پیمانے پر جانچا جائے تو نئے سپر کمپیوٹر کی صلاحیت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک دن میں اعدادوشمار کا اتنا کام کرسکتا ہے جسے بصورت دیگر ایک کھرب 20 ارب افراد ، جن کے پاس اپنے اپنے کیلکولیٹر ہوں، 50 سال میں سرانجام دیں گے۔
دس کروڑ ڈالر مالیت کا یہ سپر کمپیوٹر امریکہ کے محکمہ توانائی کے لیے تیار کیا جارہاہے جسے ریاست ٹینی سی کے شہر اوک رج کی نیشنل لیبارٹری میں نصب کیاجائے گا۔
اگلے سال امریکہ میں صرف ’ ٹائی ٹن‘ سپر کمپیوٹر کا ہی افتتاح نہیں ہوگا بلکہ آئی بی ایم کمپنی بھی کیلی فورنیا کی قومی لیبارٹری میں ایک نیا سپر کمپیوٹر نصب کررہی ہے۔
کمپیوٹر کے شعبے میں کئی عشروں تک امریکہ کو واضح برتری حاصل رہی ہے ۔ مگر 2010ء میں چین نے امریکہ سے یہ اعزاز چھین لیاتھا۔ اگرچہ اگلے سال یہ اعزاز دوبارہ امریکہ کو مل جائے گا ،لیکن ماہرین کا کہناہے کہ چین اور جاپان میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کاشعبہ جس تیز رفتاری سے ترقی کررہاہے اس کے پیش نظر امریکہ کے لیے اپنے اس اعزاز کا دفاع آسان نہیں ہوگا۔