سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو براہِ راست ٹیلی ویژن پروگراموں میں زیرِ بحث لانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 2014ء میں حدیبیہ ریفرنس ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ یہ ریفرنس سرد خانے میں کیوں رکھا گیا؟ یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایا گیا؟ کیا اٹک قلعے میں عدالت بھی ہے؟ کچھ تو وجوہات ہوں گی۔ جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے. مفرور کا تو سنا تھا یہ جلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟ نواز شریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا؟
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر نواز شریف خود باہر گئے تھے تو پھر تو ان کے خلاف مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی. اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے۔ کیا نیب نے جلاوطنی کے سہولت کاری پر قانونی کارروائی کی؟
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا کل کوئی اور حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی؟
نوازشریف کی پاکستان واپسی کے متعلق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہی سابق وزیرِ اعظم واپس آئے تھے۔
جسٹس قاضی فائزعیسٰی کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف خود ملک سے باہر گئے تھے تو انہیں وطن واپسی کے لیے درخواست دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملزمان کی وطن واپسی پر انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ اس پر عمران الحق کا کہنا تھا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتاری کا حکم دے سکتی تھی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 17 جولائی 2011ء کو اس وقت کے چیئرمین نیب کی جانب سے کیس کی بحالی کے لیے دوبارہ درخواست دائر کی گئی تھی جس کے بعد ملزمان نے 17 اکتوبر 2011ء کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے ایک روز بعد ہی ملزمان کو حکمِ امتناعی دے دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کا حکم کالعدم بھی کردیں پھر بھی ملزمان کے خلاف ریفرنس تو بحال نہیں ہوگا جس پر عمران الحق کا کہنا تھا کہ ریفرنس بحالی کی درخواست پر احتساب عدالت سماعت کرے گی۔
عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاناما پیپرز کیس کا معاملہ سامنے نہیں آتا تو نیب حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں کچھ نہیں کرتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سے کہا کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھا جائے۔ اس فیصلے میں حدیبیہ پیپر ملز کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا جبکہ اس میں لکھا گیا ہے کہ جس وقت نیب کی جانب سے اس کیس میں اپیل دائر کی جائے گی تب ہی اسے دیکھا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب حکام اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں جو اس بینچ پر لازم نہیں اور اگر سپریم کورٹ نے اس کیس پر حکم دیا ہے تو پھر ہم سماعت کیوں کررہے ہیں؟
عدالتِ عظمیٰ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس پر براہِ راست ٹی وی پروگرام میں تبصرے کرنے پر پابندی عائد کردی اور صرف کورٹ رپورٹنگ کی اجازت دی۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ٹاک شوز میں کیس کے حقائق پر بات نہیں کی جاسکتی، پیمرا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
قبل ازیں کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی نیب کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جس بنیاد پر نیب سماعت ملتوی کرانا چاہتا ہے وہ کوئی نکتہ نہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے، اگر نیب سے کوئی لا افسر پیش نہیں ہو سکتا تو پھر استعفیٰ دے دیں۔ التوا کی درخواست دائر کرنے کا حکم کس نے دیا؟
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ التوا کی درخواست کا فیصلہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اجلاس میں ہوا۔ کیس کی پیروی کے لیے نئے پراسیکیوٹر جنرل کے نام کی سمری بھیجی ہوئی ہے، جلد منظور ہو جائے گی۔ مناسب ہوگا کہ اس ہائی پروفائل کیس میں پراسیکیوٹر جنرل خود پیش ہوں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس تو ملتوی نہیں ہو گا، کیوں نہ چیئرمین نیب کو بلا کر پوچھ لیا جائے۔
کیس کی سماعت منگل کو دوبارہ ہوگی۔