سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں انسانی حقوق سے متعلق کیسز کی ان چیمبر سماعت کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان چیمبر کسی بھی کیس کو سماعت کے لیے فکس کر سکتے ہیں، تاہم کوئی حکم نامہ جاری نہیں کر سکتے۔
عدالت نے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز خان کی طرف سے سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے کنور معیز خان کو دیگر فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس ریٹائرڈ آرمی آفیسر کے خلاف وزارتِ دفاع میں جانے کا آپشن موجود ہے۔
معاملہ ہے کیا؟
ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز خان نے سپریم کورٹ انسانی حقوق سیل کو درخواست دی تھی کہ 2017 میں سابق آئی ایس آئی سربراہ کے حکم پر انہیں اغوا کر کے پانچ دن تک حبس بیجا میں رکھا گیا اور ان سے دستخط کروائے گئے۔
کنور معیز کے خلاف 2018 میں زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون نے درخواست دی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان چیمبر سنی اور دو سماعتوں کے بعد معاملہ نمٹا دیا گیا تھا۔
تاہم چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی عدالت نے ان سماعتوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ انسانی حقوق سیل کی عدالتی کارروائی کس طرح قانونی ہے؟ ساتھ ہی چیف جسٹس انسانی حقوق سے متعلق کیس ان چیمبر کیسے سن سکتے ہیں؟
عدالت نے ان سماعتوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں انصاف کے حصول کے لیے کنور معیز سول عدالت میں مقدمہ دائر کریں یا پھر وزارتِ دفاع میں سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف درخواست دیں۔
کنور معیز اور خاتون زاہدہ اسلم جاوید کے درمیان اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کے معاملے پر تنازع چل رہا تھا جس میں مبینہ طور پر اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید شامل ہوئے۔
کنور معیز نے الزام عائد کیا کہ انہیں مبینہ طور پر اغوا کر کے حبس بیجا میں رکھا گیا اور اس زمین پر قبضے کی کوشش کی گئی۔