تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ صادق اور امین کی شرائط آمروں نے اپنے لیے کیوں نہیں رکھیں؟
تاحیات نا اہلی سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں جمعرات کو براہِ راست سماعت جاری ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 2018 میں آئین کے آرٹیکل 62-ون ایف کے تحت نا اہل ہونے والے اراکینِ پارلیمنٹ کی نا اہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سمیت دیگر درخواست گزاروں نے تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
سات رکنی بینچ کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جب کہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نا اہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہو جاتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل خرم رضا نے دلائل کے دوران اسلامی اُصولوں کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی حمایت میں کوئی دلیل بھی دیں۔ توبہ اور راہِ راست، صراط المستقیم پر واپس آنے کا اصول اسلام میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شروع میں تو چند ہی لوگ مسلمان تھے۔ اس طرح تو خلفا راشدین پھر واپس آ ہی نہیں سکتے تھے۔
SEE ALSO: تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت؛ 'اگر 2002 میں قائدِ اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہو جاتے'جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون آ چکا ہے کہ نا اہلی پانچ سال کے لیے ہو گی تو پھر تاحیات نا اہلی کیسے ہو سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ آمروں اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جا سکتا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62-ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیے گئے کسی بھی شخص کے لیے سزا کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اس شق کے تحت بھی کسی شخص کو سزا سنائی گئی تو اس سے تعبیر کیا گیا کہ وہ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل ہے۔
ستمبر 2020 میں وجود میں آنے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ کیا اور شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کی تو اس حکومت نے اپنے آخری دنوں میں جون 2023 الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کیں۔
الیکشن اصلاحات بل 2017 میں ترمیم کی گئی اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا پانچ سال مقرر کی گئی۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد پانچ سال سے زیادہ نا اہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کو ہو گا جن کی تاحیات نا اہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نا اہل کر دیا گیا تھا۔