افغان باشندوں کی بے دخلی پر سپریم کورٹ میں سماعت؛ 'اُمید ہے عدالت مہاجرین کی آواز سنے گی'

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں مقیم غیر قانونی افغان شہریوں کی بے دخلی کیس میں وفاق، اپیکس کمیٹی، وزرات خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کی بے دخلی کا معاملہ آئینی تشریح کا بھی ہے، اٹارنی جنرل معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے کے نکتے پر معاونت کریں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے افغان باشندوں کی بے دخلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

درخواست گزار فرحت اللہ بابر نے مؤقف اپنایا کہ نگراں حکومت کے پاس غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں جن افغان شہریوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے وہ سیاسی پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں اور اس عدالت کے پاس شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا اختیار ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 40 سال سے جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں کیا وہ یہاں ہی رہیں؟ اس پر عدالت کی معاونت کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے معاہدے مہاجرین کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں، پاکستان اقوامِ متحدہ کے ان معاہدوں کا پابند ہے۔

عدالت نے متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔


'افغان مہاجرین کی بے دخلی کی پالیسی کسی سویلین حکومت نے نہیں بنائی'

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا جس انداز میں افغان مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کنونشنز کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افغان مہاجرین یہیں پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے، ان کے ساتھ پاکستانیوں جیسا سلوک ہونا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان باشندے 40 برس سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان مہاجرین کے لیے آج تک کوئی ریگولیشن ترتیب نہیں دیے گئے۔ اگر ان مہاجرین کے حوالے سے قوانین تشکیل نہیں دیے گئے تو یہ حکومت کی نااہلی ہے۔

فرحت اللہ بابر کے بقول بلوچستان حکومت افغان مہاجرین کو دھمکی دے رہی ہے اور پی او آر کارڈ ہونے کے باوجود انہیں بے دخل کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کی پالیسی کسی سویلین حکومت نے نہیں بنائی۔ یہ پالیسی کبھی پارلیمان میں زیرِ بحث نہیں آئی جب کہ افغان پالیسی میں دفترِ خارجہ کا بھی عمل دخل نظر نہیں آ رہا۔

اس کیس میں درخواست گزاروں کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ ہر روز سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد ہیں جن کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں سوار کر کے طورخم بارڈر کے پار بھجوایا جارہا ہے۔

عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ عدالت ان مظلوم افغان شہریوں کی آواز ضرور سنے گی۔ لیکن اس میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ روزانہ کی بنیاد پر یہ عمل جاری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں انہیں جبری طور پر بے دخل کیا جا رہا ہے۔

'مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جا رہے ہیں'

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے عدالت میں جاری کارروائی پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے اور بیشتر مہاجرین اپنی رضا مندی کے ساتھ اپنے وطن واپس جا رہے ہیں۔ اس وقت جو مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں ان میں زیادہ تر وہ مہاجرین ہیں جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور ان کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'اپنی عزت و آبرو بچانے کی خاطر پاکستان چھوڑا'

نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو ملک کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی اکثر دہشت گردانہ کارروائیوں میں افغان شہری ملوث ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جن افغان شہریوں کے پاس دستاویزات موجود ہیں انہیں کچھ نہیں کہا جا رہا البتہ حکومتی پالیسی کے مطابق غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کو عزت اور احترام سے ان کے وطن واپس بھجوایا جارہا ہے۔

پاکستانیوں سے شادی کرنے والے افغان شہریوں کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ

افغان شہریوں کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے بھی ایک اہم فیصلہ دیا ہے جس میں پاکستانیوں سے شادی کرنے والے109 افغان باشندوں کی پاکستان اوریجن کارڈ دینے کی درخواست عدالت نے منظور کر لی۔

ہائی کورٹ میں پاکستانیوں سے شادی کرنے والے افغان باشندوں کی پاکستان اوریجن کارڈ کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد نے کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزاروں کو قانون کے مطابق درخواست دینی چاہیے جس پر درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پی او سی کارڈ کے ذریعے کوئی بھی غیر ملکی پاکستانی شہری کے تمام حقوق حاصل کرسکتا ہے۔

پی او سی کارڈ کا حامل شخص پاسپورٹ نہیں لے سکتا اور ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے 109 افغان باشندوں کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں نادرا ایکٹ کے تحت پاکستان اوریجن کارڈ دینے کا حکم جاری کر دیا۔