سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سرکاری افسران سے لگژری گاڑیاں واپس لینے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاست دانوں سے سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں واپس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملوں سے کچھ نہیں ہوتا، ایک دن سب نے جانا ہے۔ کسی سیاست دان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم چلانے نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکام کو سات سابق وزرا سے منگل کی رات تک تمام گاڑیاں واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گاڑیاں واپس نہ کیں تو ہر گاڑی پر ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا جب کہ ایک ہفتے بعد دو لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو لگژری گاڑیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین طارق محمود سے کہا کہ سرکاری طور پر ضبط گاڑیوں کی افسروں نے آپس میں بندر بانٹ کر لی۔ سرکاری افسران سے لگژری گاڑیاں واپس لیں۔ وہ 1300 سی سی سے بڑی گاڑی استعمال نہیں کر سکتے۔ نیب اس معاملے کی تحقیقات کرے۔
چیئرمین ایف بی آر طارق محمود نے اعتراف کیا کہ افسران گاڑیوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ملک میں صرف قانون کی حکمرانی ہوگی۔
چیف جسٹس کا چیئرمین ایف بی آر سے مزید کہنا تھا کہ اسمگلنگ کی گاڑیوں کی وجہ سے مقامی آٹو انڈسٹری بیٹھ گئی۔ یہ بتائیں اسمگلنگ کب بند ہوگی؟ خدا کا واسطہ ہے قوم کو بددیانتی سے بچا دیں۔ ملک کو کدھر لے جا رہے ہیں؟ آئندہ نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ سیاست دانوں، سرکاری افسران نے قانون سے فرار کے راستے بنا رکھے ہیں۔ سب کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو بلٹ پروف گاڑی چاہیے تو عدالت کو آ کر بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ بلیو ایریا سمیت ملک بھر میں گاڑیوں کی اسمگلنگ کا مال فروخت ہوتا ہے۔ کھلے عام راولپنڈی میں باڑہ مارکیٹ بنی ہوئی ہے۔ ایف بی آر نے کیا ایکشن لیا؟ میں کہیں جا کر چھاپہ ماروں تو اعتراض آ جائے گا۔ کئی سیاست دانوں، سرکاری افسران نے بھی اسمگلنگ کی مارکیٹیں بنا رکھی ہیں۔ ملک کو ایسے نہیں چلایا جاسکتا۔ مشکوک گاڑیوں کے استعمال سے متعلق پالیسی کس نے بنائی؟
سپریم کورٹ نے بلٹ پروف گاڑی واپس نہ کرنے پر مولانا فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری اور کامران مائیکل کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے بدھ کو طلب کر لیا۔
تاہم سماعت ملتوی ہونے سے قبل ہی تینوں شخصیات نے اپنی گاڑیاں واپس کردیں جس پر سپریم کورٹ نے طلبی کا نوٹس واپس لے لیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ وہ اپنی سکیورٹی کا خود بندوبست کیوں نہیں کرتے۔
کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موت کا دن متعین ہے۔ حملوں سے فرق نہیں پڑتا۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ بلوچستان کے وزرا سے 49 لگژری گاڑیاں لے لی ہیں جب کہ مزید سات گاڑیاں وزرا سے ریکور کرنی باقی ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ رات 12 بجے تک گاڑیاں واپس لیں۔ گاڑیاں واپس نہ کرنے والوں کو روزانہ ایک لاکھ روپے جرمانہ کریں۔ ایک ہفتے بعد جرمانہ 2 لاکھ روپے ہو جائے گا۔
عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب اور چیئرمین ایف بی آر سے لگژری گاڑیوں پر بیانِ حلفی طلب کر تے ہوئے سماعت 12 جون تک ملتوی کردی۔