حکومت کا انکار؛ سپریم کورٹ کا اسٹیٹ بینک کو الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا حکم

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈز اجرا کیس میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو وزارتِ خزانہ کو 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ نے فنڈز دینے سے منع کیا ہے تو کیسے جاری کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

جمعے کو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے اس معاملے پر ان چیمبر سماعت کی جہاں عدالت نے گورنر اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ اور الیکشن کمیشن حکام کو ذاتی حیثیت پر طلب کر رکھا تھا۔

بعدازاں چیف جسٹس نے نو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کے حکام سے کہا کہ وہ 18 اپریل تک حکم کی تعمیل پر رپورٹ جمع کرائیں۔

وزارت خزانہ حکام نے اِن چیمبر سماعت میں مؤقف دیا کہ ہمارے اوپر قرضہ جات ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکام نے بریفنگ دی کہ 21 ارب روپے کی رقم خزانے میں موجود ہے جو حکومت کی منظوری سے ہی جاری کی جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے حکومتی مؤقف پیش کیا جس پر انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ججز نے فنڈ جاری نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالتی حکم پر عمل کرنا پڑے گا۔


چیف جسٹس کے چیمبر میں ہونے والی سماعت سے قبل اٹارنی جنرل کی وزارتِ خزانہ کے حکام سے ملاقات ہوئی جب کہ وزیر اعظم نے بھی اٹارنی جنرل کو مشاورت کے لیے طلب کیا تھا۔

دوران سماعت قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین چوہدری، ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک قدیر بخش اور پروٹوکول آفیسر اسٹیٹ بینک محسن افضال بھی سماعت میں موجود تھے۔سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید، ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈی جی لا الیکشن کمیشن بھی سماعت میں موجود تھے۔

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے گورنر اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ اور الیکشن کمیشن حکام کو ذاتی حیثیت پر طلب کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے 12 اپریل کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کی رپورٹ پر نوٹسز جاری کیے تھے۔

عدالت نے پنجاب میں انتخابات کے لیے حکومت کو 21 ارب روپے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی جب کہ 4 اپریل کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو 11 اپریل تک فنڈز سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے 11 اپریل کو رپورٹ میں بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے۔

سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، تاہم وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔

ججز کے درمیان ہاتھا پائی کی تردید

دریں اثنا سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججز کے درمیان ہاتھا پائی کی خبروں کی تردید کی ہے۔

جمعے کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ جمعرات کی شام واک کے دوران ججز کے درمیان جھگڑا اور ہاتھا پائی ہوئی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان جھگڑے کی جھوٹی رپورٹنگ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے جمعے کو ٹوئٹ کی تھی کہ 'مصدقہ اطلاعات کے مطابق آٹھ رُکنی بینچ کے 'غیر قانونی' فیصلے کے باعث جمعرات کی رات ججز کے درمیان گالم گلوچ کا تبادلہ ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ججز کے درمیان اس حد تک تقسیم ملک کو لاقانونیت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ عطا تارڑ نے ٹوئٹ کے اختتام پر لکھا کہ سنا ہے کہ بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی تھی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ رُکنی بینچ نے جمعرات کی شب عدالتی اصلاحات سے متعلق بل متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔