سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے نئی رپورٹیں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے جج قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے ہیں کہ جب ریاست ختم ہو جائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے۔ کیا ایجنسیاں مرچکی ہیں؟ دھرنے کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے۔ دھرنے کے لیڈرز کہاں سے کھاتے پیتے ہیں؟ کیا ان لوگوں کا کاروبار نہیں؟ کیا ہماری ایجنسیوں کو معلوم نہیں دھرنے کو کون فیڈ کر رہا ہے؟ کل کو کوئی اور اپنے موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا۔
اسلام آباد کے مرکزی داخلی راستے فیض آباد پر گزشتہ ڈھائی ہفتوں سے جاری دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی جس میں وزارتِ دفاع نے حساس اداروں اور اٹارنی جنرل نے وزارتِ داخلہ کی رپورٹیں جمع کرائیں۔
جب سماعت شروع ہوئی تو بینچ میں شامل جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ کا جائزہ لیا؟ رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت تمام حالات سے آگاہ تھی لیکن اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ پاکستان دلیل سے بنا، ڈنڈے کے زور پر بات اچھی نہیں لگتی۔ دین میں کوئی جبر نہیں۔ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہوگیا، دشمن ہمارے گھرمیں آگ لگا رہے ہیں، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہے، حکومت راستے بند کرنے پر بات نہیں کر رہی۔
اپنے ریمارکس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جب کہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے؟ کل کو کوئی اور اپنے موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا۔ اسلام تو راستے میں پڑا پتھر ہٹانے کی ہدایت کرتا ہے۔کیا آمدورفت کی آزادی اسلام میں شامل نہیں ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ مگر مجھے کوئی مسکراتی شخصیت نظر نہیں آتی، کیونکہ لوگوں نے قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس سارے معاملے پر میرا دل چکنا چور ہوگیا ہے۔ کیا پیارے نبی کی سیرت سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ساری صورتِ حال میں ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم نظر نہیں آرہی،کیا یہ چیز معاشرے کو تباہ نہیں کررہی؟ دھرنے میں گالی گلوچ کی زبان استعمال کی جارہی ہے۔ کیا معاشرہ اس طرح چلتا ہے؟ حکومت اور احتجاج کرنے والے بنیادی نکتہ مس کررہے ہیں۔ اختلافات ہوتے رہتے ہیں، کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں کہ اپنا معاملہ سڑکوں پر لے جایا گیا؟
اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتایا جائے کہ دھرنے کے باعث کتنا خرچہ آرہا ہے؟ انہیں سہولتیں کون فراہم کررہا ہے؟ دھرنے کے شرکا کے پاس میگا فون اور کرسیاں کہاں سے آئیں؟ عدالت کو اس سے آگاہ کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب دھرنے کے شرکا لاہور سے روانہ ہوئے تو حکومتِ پنجاب نے قبل ازوقت اقدامات کیوں نہیں کیے؟
سوشل میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دھرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر سب چل رہا ہے لیکن پیمرا نے نوٹس نہیں لیا۔ ساتھ ہی بتایا جائے کہ اس معاملے کو اتنی میڈیا کوریج کیوں مل رہی ہے؟
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ لوگوں کوتکلیف ہورہی ہے۔ اس طرح کے حالات میں دشمنوں کے لیے بڑا آسان ہے کہ کہیں آگ لگادے اور ہم آپس میں لڑتے رہیں۔ بس اپنی شہرت کےلیے سب ہورہاہے تاکہ نام آجائے۔
اس موقع پر جسٹس فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے پرچے کتنے کاٹے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مقدمات درج کیے ،169 لوگ گرفتار ہیں، چہلم حضرت امام حسین کا وقت تھاجب وہ وہاں آکر بیٹھے، ہم نہیں چاہتے کہ خون خرابہ ہو۔
ازخود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیتے ہوئے کا کہ ایمبولینس کوراستہ دینے سے ہماری ضد بہت بڑی لگی، جس کے باعث ایک بچہ فوت ہوا۔ یہ صورت دھرنے والوں کے دل میں سماجاتی تو دھرنے والے اٹھ کر چلے جاتے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ان تمام حالات میں جس کا بچہ مر گیا اس پر کیا بیت رہی ہو گی؟
سپریم کورٹ نے حساس اداروں کی جانب سے پیش کردہ رپورٹوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور قرار دیا کہ آئی ایس آئی ایک طاقت ور ادارہ ہے لیکن رپورٹ میں ناموں کے علاوہ کچھ نہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ بھی اسی قسم کی ہے۔ اہم معاملہ ہے، کچھ تو سنجیدگی دکھائیں۔ اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے دے گا۔
عدالت نے ازخود نوٹس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی اور حساس اداروں کے اعلٰی افسران کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
سماعت ملتوی کرتے ہوئے جسٹس فائز نے کہا کہ دھرنے کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ حکومت مثبت اور ٹھوس اقدامات کے ساتھ آئندہ سماعت پر پیش ہو۔ ہم سنجیدہ اقدامات چاہتے ہیں، آئین کی بالادستی کو حکومت نے برقرار رکھنا ہے، ہمارے پیغمبر نے کسی بات پر ایسی زبان استعمال نہیں کی، متعدد ممالک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔
سنی تحریک اور تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ 18 روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔
دھرنے میں شامل دونوں مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں کاغذاتِ نامزدگی میں ختمِ نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرکے انہیں عہدوں سے برطرف کرے۔
اس دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔