کراچی: 'پولیس افسران ڈرتے ہیں تو نوکری چھوڑدیں'

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آئی جی پولیس محافظوں کے بغیر شہر کے چکرلگائیں تاکہ انہیں اصل حالات کا علم ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں ڈر لگتا ہے تو آئی جی سندھ کا منصب چھوڑ دیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی میں امن و امان سے متعلق حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے صوبے کی چیف سیکریٹری اور ڈی جی رینجرز کو طلب کرلیا ہے۔

کراچی از خود نوٹس کیس میں گزشتہ برس دیے گئے کے فیصلے پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے شہر کی بعض شاہراہوں پر پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹانے کا بھی حکم دیا۔

یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ برس بدترین ٹارگٹ کلنگ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال کا از خود نوٹس لے کر کیس کی سماعت کی تھی ۔

کئی ہفتوں کی سماعت کے بعد اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمے کا فیصلہ اکتوبر2011ء میں سنایا تھا جس میں سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شہر میں چند ماہ نسبتاً امن رہا تھا لیکن اس کے بعد پھر سے اہدافی قتل اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو تاحال جاری ہے۔ 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے مطابق 2012ء کے ابتدائی سات ماہ میں کراچی 1725 افراد قتل ہوئے جن میں سے 1345 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
بلاول ہائوس کو مزید کتنی سیکیورٹی چاہیے؟ پوراروڈ گھیرلیا ہے۔ صدرِ مملکت سے کہیں کہ یہ سڑک خرید لیں۔
عدالت


ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ عدالت کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے منگل کو کراچی رجسٹری میں مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے صوبائی حکومت کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شہر کی صورتحال بہتر ہوئی۔ تاہم بینچ کے سربراہ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ شہر کے حالات بہتر ہوتے تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ پڑتی ۔ لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہو گیا ہے۔

دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پولیس عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے لیکن پولیس افسران کی تمام توجہ ذاتی سیکیورٹی پر ہے۔ پولیس افسران اسکواڈ نہ رکھیں،اگر انہیں خوف ہے تو نوکری چھوڑ دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پورے ملک سے دہشت گرد سیلاب کی طرح کراچی آرہے ہیں۔ جس پر بینچ کے رکن جسٹس خلجی عارف نے پوچھا کہ دہشت گردوں کے سیلاب کو روکنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ شہر میں بچوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہے؟

سماعت کے دوران فاضل ججوں نے کئی مواقع پر پولیس افسران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آئی جی پولیس محافظوں کے بغیر شہر کے چکرلگائیں تاکہ انہیں اصل حالات کا علم ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں ڈر لگتا ہے تو آئی جی سندھ کا منصب چھوڑ دیں۔

جسٹس انورظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ عدالت بحالت مجبوری دوبارہ بدامنی کیس کی سماعت کررہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر کراچی کے حالات میں بہتری آئی ہوتی تو کیس کی دوبارہ سماعت کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قانون سازی نہ کیے جانے سے متعلق بینچ کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ جلد قانون سازی کرلی جائے۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ حکومت جب چاہتی ہے آدھے گھنٹے میں قانون بنالیتی ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ تیرہ ماہ بہت ہوتے ہیں۔اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کیا جاتا تو آج حالات بہت بہتر ہوتے۔
شہر کے حالات بہتر ہوتے تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ پڑتی ۔ لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہو گیا ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی


صوبے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ کہ روزانہ 20 افراد غیر قانونی اسلحے سمیت پکڑے جاتے ہیں لیکن پکڑے جانے والے عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں جس پر بینچ نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابلِ ضمانت جرم ہے اور اس کے تدارک کے لیے عدالتوں پر الزام لگانے کے بجائے قانون سازی کریں۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ اس سال 90 پولیس افسر شہید ہوئے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب آپ کی نااہلی اور غفلت ہے۔ غریب پولیس والے ہی مارے جارہے ہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ کوئی بڑا افسر شہید نہیں ہوا، اے ایس آئی اور انسپکٹر کی سطح کے افسر شہید ہورہے ہیں۔

عدالت نے صدر آصف علی زرداری کی کراچی میں واقع رہائش گاہ اور صدارتی کیمپ آفس 'بلاول ہائوس' کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑک بند کرنے پر بھی ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آخر بلاول ہائوس کو مزید کتنی سیکیورٹی چاہیے؟پوراروڈ گھیرلیا ہے۔ صدرِ مملکت سے کہیں کہ یہ سڑک خرید لیں۔

عدالت نے سپریم کورٹ کے اطراف میں پولیس کی جانب سے بند کی گئی سڑکوں کو بھی فوری طور پر کھولنے کا حکم دیا۔

دورانِ سماعت عدالت کے سامنے 'کراچی بار ایسوسی ایشن' کے سابق صدر محمد عاقل بار کے نمائندے کی حیثیت سے پیش ہوئے اور شہر میں قتل ہونے والے وکلا کے ورثا کو زرِ تلافی کی عدم ادائیگی کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔

سماعت کے بعد 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں محمد عاقل نے بتایا کہ 2011ء کے دوران میں صوبہ سندھ میں کل 19 وکلا ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 14 کو کراچی میں ہدف بنا کر قتل کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے اپنے گزشتہ برس کے فیصلے میں حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے ورثا کو زرِ تلافی ادا کرے لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود صرف چھ مقتول وکلا کے خاندانوں کو رقم ملی ہے۔

محمد عاقل کا کہنا تھا کہ انہوں نے بینچ کو بتایا کہ حکومتِ سندھ نے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مقتول پولیس اہلکاروں کے ورثا لیے 20 لاکھ جب کہ قتل ہونے والے عام شہریوں کے ورثا کے لیے دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے جس پر بینچ نے ناراضی ظاہر کی اور اس بارے میں ایڈوکیٹ جنرل سے رپورٹ طلب کی ہے۔