دفاعی تجزیہ کارجنرل طلعت مسعود نے کہا ہے کہ سوات میں جنگجوؤں کےخلاف فوجی کارروائی کی ضرورت تھی، اورجو بنیادی وجوہات تھیں جِن کےباعث سوات میں جنگجو قوتوں اور طالبان نےپہلے زور پکڑا تھا ترجیحی طور پرذہن کواُنہی باتوں پرمرکوز رکھا جانا چاہیئے۔
اتوار کے روز ’وائس آف امریکہ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل (ر)طلعت نےکہا کہ جب تک اِس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوگی، یہ خطرہ باقی رہےگا کہ کہیں یہ لوگ پھر حالات کی خرابی کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کریں۔
اُن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وادی سوات میں سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ اِس طرف اشارہ کرتی ہے کہ سوات میں 2009ء میں جو بھرپور کارروائی کی گئی تھی اُس کے بعد شدت پسند ایک بار پھر وہاں جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ پہلی کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کو ایک بڑا ھچکہ لگا اور وہ ناکام رہے، اور دوسری طرف، پاکستان کی افواج نے بڑی ہمت دکھائی اور عوام نے بھی اُن کا ساتھ دیا اور جنگجو پیچھے دھکیلے گئے۔ ساتھ ہی حقائق اِس بات کی غمازی بھی کرتے ہیں کہ شدت پسند عناصر بالکل ختم نہیں ہوئے، اور اُن کی قیادت اب بھی کسی قدر باقی ہے، لیکن فرار ہوگئی ہے۔
حکام کے مطابق اتوار کو وادی سوات میں کارروائی کے دوران سات شدت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
جنرل (ر) طلعت نےکہا کہ عین ممکن ہے کہ مہمند ایجنسی میں ہونےوالی کارروائی کے نتیجے میں جنگجوؤں نے سوات کا رُخ کیا ہو۔ اُن کے بقول، قبائلی علاقے میں بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ لوگ پناہ لے لیتے ہیں، اور جب بھی فوجی کارروائی ہوتی ہے ایسے عناصر بھاگنے کی جگہ تلاش کرلیتے ہیں، کیونکہ تمام علاقہ سنگلاخ اور دشوار گزار ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج اور حکومت کو چوکنا رہنے اور انٹیلی جنس کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب اُن کا دھیان کوہاٹ کی طرف نقل مکانی کےبارے میں رپورٹوں کی طرف مبذول کرایا گیا ، دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اُن کے بقول، پہلے تو یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ نقل مکانی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ساتھ ہی، بڑے آپریشن کی صورت میں بعض مرتبہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ مقامی لوگوں سے کہا جائے کہ علاقہ خالی کردیں تاکہ جنگجو قوتوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے، ورنہ شدت پسند مقامی لوگوں کا سہارا لے کر چھپ جاتے ہیں اور بچے رہتے ہیں۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: