شامی افواج نے لبنان کی سرحد کے ساتھ واقع اس قصبہ پر شدید گولہ باری کی ہے جسکےرہائشی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے جاری احتجاجی تحریک میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔
جمعرات کے روز شامی افواج نے تلکالخ نامی سرحدی قصبے اور اس سے ملحقہ گائوں 'اریدہ' کو ٹینکوں اور دیگر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سےنشانہ بنایا۔
انسانی حقوق کے ایک کارکن نے امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا ہے کہ شہر کے رہائشیوں کی جانب سے سرکاری افواج پر جوابی فائرنگ بھی کی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تلکا لخ میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف ہفتے کے روز سے جاری سرکاری فورسز کے کریک ڈائون میں اب تک 27 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
گزشتہ روز امریکہ نے شامی صدر بشار الاسد اور ان کی انتظامیہ کے چھ اعلیٰ اہلکاروں کو شامی فورسز کی جانب سے حزبِ مخالف کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کا براہِ راست ذمہ دار ٹہراتے ہوئے ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ نے صدر بشار الاسد سے ملک میں جمہوری اصلاحات متعارف کرانے یا بصورتِ دیگر اقتدار سے دستبردار ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
شام کی جانب سے صدر الاسد اور چھ دیگر حکومتی اہلکاروں کے خلاف عائد کردہ امریکی پابندیوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' کو جاری کردہ ایک بیان میں شامی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی اقدامات کا مقصد شامی عوام کو نشانہ بنانا اور "اسرائیل کے مقاصد" پورے کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شامی حکومت کے ملک میں "جامع اصلاحات" متعارف کرانے کے عزم پر امریکی پابندیوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
امریکی پابندیوں کے تحت صدر بشار الاسد اور ان کی انتظامیہ کے چھ دیگر اہلکاروں کے امریکی حدود میں موجود تمام اثاثہ جات اور بینک کھاتے منجمد کردیے گئے ہیں جبکہ امریکی شہریوں اور کمپنیوں پر بھی ان افراد کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ شامی اہلکاروں کے کون کون سے اثاثے امریکی پابندیوں سے متاثر ہونگے۔
ادھر یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ اس کی جانب سے شام کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کو مزید سخت کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ یورپی حکام کے مطابق مجوزہ پابندیوں کے تحت صدر بشار الاسد کے خلاف بھی کئی اقدامات اٹھائے جائینگے۔
شام کی حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق ملک میں مارچ کے وسط سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران اب تک 850 سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اب تک حزبِ مخالف کے سات ہزار سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
مظاہرین صدر بشار الاسد کے استعفیٰ اور ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔