انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ عرب لیگ کے مبصرین کے دورے سے قبل شامی حکام نے سیاسی قیدیوں کو جیلوں سے فوجی چھاؤنیوں میں منتقل کردیا ہے تاکہ مبصرین کو ان کی موجودگی سے لاعلم رکھا جاسکے۔
قبل ازیں شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ حکومت نے حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران حراست میں لیے گئے 755 افراد کو رہا کردیا ہے۔
حکام کے مطابق رہا ہونے والوں وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہموطنوں کے خلاف کسی پرتشدد کاروائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔
نیویارک میں قائم تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے بدھ کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں عرب لیگ سے کہا ہے کہ وہ تمام قیدخانوں تک رسائی فراہم کرنے کے لیے شامی حکومت سے اصرار کرے اور شام کی جانب سے مبصرین کے کام میں مداخلت پر احتجاج کیا جائے۔
تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مبصرین کے شام پہنچنے سے کچھ دیر ہی قبل عام جیلوں سے فوجی چھاؤنیوں اور مراکز میں منتقل کیے جانے والے سیاسی قیدیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
عرب لیگ کے مبصرین شہروں سے فوجیوں کے انخلا، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کی روک تھام سے متعلق سرکاری کی یقین دہانیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان دنوں شام کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں۔
مبصر مشن کے سربراہ اور سوڈان کے فوجی جنرل محمد دابی نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ ان کا وفد جلد مزید تین مقامات ’ حما، اِدلب اور درعا ‘ کا دورہ کرے گا۔
اس سے قبل مبصرین نے منگل کو حمص شہر کا دورہ کیا تھا جو شام میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف گزشتہ نو ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کا گڑھ رہا ہے۔
مبصرین کے دورے کے موقع پر حمص کے باشندوں نے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جنہیں منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس استعمال کی۔
لندن میں قائم شامی حزبِ مخالف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے دعویٰ کے مطابق مظاہرین کی تعداد 70 ہزار سے زائد تھی جو صدر بشار الاسد کو پھانسی دینے کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں مارچ سے جاری احتجاجی تحریک سے منسلک پرتشدد کاروائیوں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔