حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد 'لوکل کوآرڈی نیشن کمیٹی آف سیریا' کے مطابق بیشتر ہلاکتیں مختلف شہروں میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پہ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہوئیں۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد شام کے کئی شہروں میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین صدر بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ادھر شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' نے دمشق اور حمص میں صدر الاسد کی حکومت کی حمایت میں ہونے والی ریلیوں کی تصاویر جاری کی ہیں جس میں شرکا نے شام کے قومی پرچم اٹھا رکھے ہیں۔
دریں اثنا شام میں موجود عرب لیگ کے مبصرین کے دورے جاری ہیں اور 'صنعا' کے مطابق مبصرین کی ایک ٹیم نے احتجاجی تحریک کے مرکز رہنے والے شہر حمص کے نواحی علاقوں کا دورہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق مبصرین نے اپنے سفر کے دوران راستے میں پڑنے والے ایک اسپتال کا بھی دورہ کیا اور وہاں داخل زخمیوں سے ملاقاتیں کیں۔
'صنعا' کے مطابق مبصرین کی دو دیگر ٹیموں نے دارالحکومت دمشق اور حما کے نواحی علاقوں کے بھی دورے کیے۔
یاد رہے کہ عرب لیگ سے تعلق رکھنے والے 60 مبصرین ان دنوں شام میں موجود ہیں جہاں وہ شہروں سے فوجیوں کے انخلا، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کی روک تھام سے متعلق شامی حکومت کی یقین دہانیوں کا جائزہ لینے کے لیے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں۔
قبل ازیں جمعہ کو شامی حکومت کے ایک اہم اتحادی روس نے مبصر مشن کے ابتدائی نتائج پہ اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مبصرین کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پرتشدد واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر حمص میں "صورتِ حال معمول پر آتی نظر آرہی ہے"۔
شامی افواج نے حمص شہر میں تعینات اپنے کچھ ٹینک واپس بلالیے ہیں جب کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران حراست میں لیے گئے لگ بھگ 800 سے زائد افراد کو بھی رہا کردیا گیا ہے۔
تاہم حزبِ مخالف کے رہنما برہان غالیون نے دعویٰ کیا ہے کہ اب بھی سیکیورٹی فورسز کی حراست میں ایک لاکھ سے زائد قیدی موجود ہیں جن میں سے کئی افراد کو فوجی چھائونیوں اور ساحل سے دور کھلے سمندر میں لنگر انداز جہازوں میں قید رکھا گیا ہے۔
مظاہرین کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی پرتشدد کاروائیوں پر بڑھتے ہوئے عالمی دبائو کے زیرِ اثر شامی حکومت نے عرب لیگ کے مبصرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دی تھی۔
شامی حکومت اور عرب لیگ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت مبصرین کو حساس فوجی تنصیبات کے علاوہ ہر اس مقام پر جانے کی اجازت ہے جہاں وہ جانا چاہیں۔
اقوامِ متحدہ کے دعویٰ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کے 11 سالہ طویل اقتدار کے خلاف رواں برس مارچ میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے دوران اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
شامی حکومت بیشتر ہلاکتوں کا ذمہ دار مسلح گروہوں اور شدت پسندوں کو قرار دیتی ہے جو حکومتی دعویٰ کے مطابق اس عرصے کے دوران دو ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی قتل کرچکے ہیں۔