رسائی کے لنکس

شام: عرب لیگ مبصر مشن کے سربراہ پر تنقید


شام: عرب لیگ مبصر مشن کے سربراہ پر تنقید
شام: عرب لیگ مبصر مشن کے سربراہ پر تنقید

ناقدین کا کہنا ہے کہ سوڈان کی متنازعہ فوجی مہمات کے دوران بطورِ کمانڈر اور انٹیلی جنس چیف اپنے کردار کے باعث جنرل محمد احمد مصطفی الدابی عرب لیگ کی جانب سے دی گئی اس اہم ذمہ داری کے لیے نا اہل ہیں

انسانی حقوق کی تنظیموں اور شامی حزبِ اختلاف کے رہنمائوں نے شام میں جاری پرتشدد واقعات کی روک تھام کی نگرانی پہ مامور عرب لیگ کے مبصر مشن کی سربراہی سوڈان کے ایک فوجی جنرل کو سونپنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سوڈان کی متنازعہ فوجی مہمات کے دوران بطورِ کمانڈر اور انٹیلی جنس چیف اپنے کردار کے باعث جنرل محمد احمد مصطفی الدابی عرب لیگ کی جانب سے دی گئی اس اہم ذمہ داری کے لیے نا اہل ہیں۔

واضح رہے کہ عرب لیگ سے تعلق رکھنے والے 60 مبصرین ان دنوں شام میں موجود ہیں جہاں وہ شہروں سے فوجیوں کے انخلا، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کی روک تھام سے متعلق شامی حکومت کی یقین دہانیوں کا جائزہ لینے کے لیے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں آنے والی بعض اطلاعات کے مطابق ان مبصرین میں سے ایک درجن سے زائد کا تعلق سوڈان سے ہے جہاں کی حکومت کو ماضی قریب میں مخالفین کے ساتھ روا رکھے گئے پرتشدد سلوک پہ انسانی حقوق کی تنظیمیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔

مبصر مشن کے سربراہ جنرل الدابی سوڈان کے صدر عمر البشیر کی حکومت کے ایک اہم عہدیدار ہیں۔ یاد رہے کہ صدر البشیر دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کو سوڈان کے مغربی علاقے دارفور میں مبینہ طور پر پیش آنے والے جنگی جرائم کے الزام میں مطلوب ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے رواں ہفتے جاری کیے گئے ایک بیان میں جنرل الدابی کی مبصر مشن کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایمنسٹی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ایک ملک کے فوجی جنرل کو مبصر مشن کی سربراہی دے کر عرب لیگ نے اپنے مشن کی ساکھ پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

شامی حزبِ اختلاف کا مرکزی اتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' بھی جنرل الدابی کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

'وائس آف امریکہ'سے گفتگو میں اتحاد کے مشیر اسامہ مناجید نے بتایا کہ ان کا اتحاد جنرل الدابی کی جگہ کسی اور کی تعیناتی کے لیے عرب لیگ سے درخواست کرنے پہ سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ حزبِ مخالف اس وقت تک انتظار کرے گی جب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں مل جاتا کہ مبصر مشن شام کی صورتِ حال پر مرتب کردہ اپنی رپورٹ میں الاسد حکومت کی ناجائز حمایت کرے گا۔

تاہم عرب لیگ کے ایک عہدیدار نے امریکی خبر رساں ایجنسی 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو میں الدابی کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں تنظیم کے تمام 22 رکن ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ جنرل الدابی سوڈانی قیادت کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے 1989ء کے اس فوجی انقلاب کی حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں صدر البشیر اقتدار میں آئے تھے۔

فوجی انقلاب کی حمایت کرنے پر صدر البشیر نے انہیں اسی برس فوج کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ نامزد کردیا تھا۔

XS
SM
MD
LG