شام کے مشرقی حصے میں داعش کے کنٹرول کے ایک علاقے میں کئے گئے فضائی حملے میں 28 عام شہریوں سمیت 54 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حملہ امریکی قیادت کی بین الاقوامی فورسز یا عراقی فورسز نے کیا تھا۔
خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں داعش کے جنگجو بھی شامل ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کے نگران ادارے سیرین آبزرویٹری نے کہا ہے کہ یہ حملہ جمعرات کے روز السوسہ اورالباغوزفوقیانی کے قصبوں کے نزدیک ایک علاقے پر کیا گیا۔ یہ مقام عراقی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ شام کے ان آخری علاقوں میں سے ایک ہے جہاں داعش موجود ہے۔
امریکی فوجی اتحاد کے ایک ترجمان کرنل شان ریان نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی یا شراکت داروں کی فورسز نے داعش کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحادی أفواج عام شہریوں کی مبینہ ہلاکتوں کی چھان بین کریں گی۔
انہوں نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے مزید معلومات نہیں ہیں۔
شام کی وزارت خارجہ کے حملے کو قتل عام اور غیر قانونی اتحاد کی جارحیت قرار دیا ہے۔ دمشق کا کہنا ہے کہ شام میں موجود اتحادی أفواج نے قبضہ کیا ہوا ہے کیونکہ اس ملک میں ان کا قیام بلا اجازت ہے۔
امریکی قیادت کی اتحادی فورسز شام اور عراق کی سرحد کے دونوں جانب داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ شام میں وہ یہ کارروائیاں سیرین ڈیموکریٹک فورسز ایس ڈی ایف کی مدد سے کر رہی ہیں، جو عسکری گروپس کا اتحاد ہے جس میں کرد بھی شامل ہیں۔
سیرین آبزرویٹری نے کہا ہے کہ طیاروں نے سوسہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر عراقی سرحد کے قریب برف کے ایک کار خانے کو نشانہ بنایا ۔ ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں زیادہ تر کا تعلق عراق سے تھا۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
اس سے قبل کی رپورٹس میں دمشق کے سرکاری میڈیا صنا اور حکومت کے حامی ایک اخبار الوطن نے امریکی قیادت کی فورسز پر فضائی حملوں کا الزام لگایا تھا۔
داعش کو ان دونوں ملکوں میں بڑے پیمانے پر شکست ہو چکی ہے لیکن اس کے جنگجو سرحدی صحرائی علاقوں میں فعال ہیں۔