حزب مخالف کے گروہوں نے بتایا ہے کہ ایک مسجد جسے اسکول کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، اُن عماتوں میں سے ایک ہے جسے دھماکہ خیز ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا، جسے ’بیرل بم‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے
واشنگٹن —
شام کے سرگرم کارکنوں کے گروہوں کا کہنا ہے کہ منگل کے روز حلب کے شمالی شہر پر نئے سرے سے حکومتی فضائی حملے کیے گئے، جب کہ پیر کے دِن ہونے والے فضائی حملوں میں تقریباً 30 افراد ہلاک ہوئے۔
حزب مخالف کے گروہوں نے بتایا ہے کہ ایک مسجد جسے اسکول کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، اُن عماتوں میں سے ایک ہے جسے دھماکہ خیز ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا، جسے ’بیرل بم‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
فوری طور پر، حکومت شام کی طرف سے اِن حملوں کی تصدیق نہیں ہوئی۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ’صنعا‘ خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ منگل کو حلب میں ’دہشت گردوں‘ کی طرف سے کی گئی بڑے دھانے کی گولہ باری کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک بچہ ہلاک ہوا۔
حالیہ دِنوں کے دوران، صدر بشار الاسد کی حامی فوج رفتہ رفتہ باغیوں کے زیرِ قبضہ حلب کے علاقے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے، جس پر 2012ء میں مخالفین نے قبضہ کر لیا تھا۔
ایک اور خبر کے مطابق، روسی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ حکومت شام اگلے ہفتے مخالفین کے ساتھ امن مذاکرات پھر سے شروع کرے گی، جس سے قبل جمعے کو جنیوا میں مذاکرات کا پہلا دور منعقد ہوا تھا، جس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔
منگل کو یہ بیانات اُس وقت سامنے آئے جب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شام کے قومی اتحاد کے صدر، احمد جاربہ سے ماسکو میں ملاقات کی۔
لاوروف نے کہا کہ روس اس بات کا خواہاں ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ رابطہ رکھا جائے، اور شام کے بحران کے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے وہ تمام فریق کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
جاربہ نے کہا کہ اپوزیشن بھی اس بات کی خواہاں ہے کہ بات چیت جاری رکھی جائے اور یہ کہ ایک سیاسی حل تلاش کرنے کے سلسلے میں روس ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
حزب مخالف کے گروہوں نے بتایا ہے کہ ایک مسجد جسے اسکول کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، اُن عماتوں میں سے ایک ہے جسے دھماکہ خیز ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا، جسے ’بیرل بم‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
فوری طور پر، حکومت شام کی طرف سے اِن حملوں کی تصدیق نہیں ہوئی۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ’صنعا‘ خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ منگل کو حلب میں ’دہشت گردوں‘ کی طرف سے کی گئی بڑے دھانے کی گولہ باری کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک بچہ ہلاک ہوا۔
حالیہ دِنوں کے دوران، صدر بشار الاسد کی حامی فوج رفتہ رفتہ باغیوں کے زیرِ قبضہ حلب کے علاقے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے، جس پر 2012ء میں مخالفین نے قبضہ کر لیا تھا۔
ایک اور خبر کے مطابق، روسی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ حکومت شام اگلے ہفتے مخالفین کے ساتھ امن مذاکرات پھر سے شروع کرے گی، جس سے قبل جمعے کو جنیوا میں مذاکرات کا پہلا دور منعقد ہوا تھا، جس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔
منگل کو یہ بیانات اُس وقت سامنے آئے جب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شام کے قومی اتحاد کے صدر، احمد جاربہ سے ماسکو میں ملاقات کی۔
لاوروف نے کہا کہ روس اس بات کا خواہاں ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ رابطہ رکھا جائے، اور شام کے بحران کے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے وہ تمام فریق کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
جاربہ نے کہا کہ اپوزیشن بھی اس بات کی خواہاں ہے کہ بات چیت جاری رکھی جائے اور یہ کہ ایک سیاسی حل تلاش کرنے کے سلسلے میں روس ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔