اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے شام میں امن بات چیت کا پہلا دور مکمل ہونے پر کہا ہے کہ لڑائی کے خاتمے اور محصور علاقوں تک امداد کی رسائی سے متعلق بہت اہم معاملات پر بہت کم پیش رفت ہو سکی ہے۔
جمعہ کو جنیوا میں براہیمی نے صحافیوں کو بتایا کہ بات چیت کا اگلا دور دس فروری کو ہو گا۔ لیکن شام کی حکومت نے تصدیق نہیں کی کہ وہ ان میں شرکت کرے گی یا نہیں۔
خصوصی ایلچی کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان "خلیج بدستور وسیع ہے اور اس بارے میں کسی طرح کا بہانہ بنانے کا فائدہ نہیں۔"
براہیمی نے دس نکات پیش کیے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ان پر دونوں فریق متفق ہو جائیں گے لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ ایسا نہ ہو سکا۔
"پیش رفت دراصل بہت ہی سست ہے، لیکن طرفین ایک قابل قبول انداز میں شریک ہوئے۔ یہ ذرا آغاز ہے اور یہ شروعات ایسی ہیں جنہیں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ان آٹھ "مشکل" دنوں میں حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے ایک ہی کمرے میں بیٹھتے رہے جس کے بارے میں ان کے بقول پہلے یہی سوچا جا رہا تھا کہ ایسا ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔
اس سے قبل دونوں فریق علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنس میں مختلف امور پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔
شام کے وزیر خارجہ والید معلم کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کا وفد اصل نمائندہ نہیں اور بہت سے مسلح گروپس پر اس کا اختیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ صدر بشار الاسد کریں گے کہ حکومتی وفد جنیوا واپس جائے گا یا نہیں۔
"وہ پہلے اس ہفتے میں ہونے والی کارروائی پر ہماری رپورٹ کا مطالعہ کریں گے اور اس کے مطابق ہم سے اور حکومت سے تبادلہ خیال کریں گے اور پھر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔"
حزب مخالف کے ترجمان لوئی صافی کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت دوبارہ شروع ہوتی ہے تو اس میں کم ازکم عبوری حکومت کی تشکیل بھی ایجنڈے میں شامل ہونی چاہیے۔
"مجھے یقین ہے کہ یہ ایک بہت مشکل سلسلہ ہے لیکن اس میں سے گزرنا ہے، یہاں گزارا جانے والا ایک ایک لمحہ شام کو بچانے کے لیے بہت اہم ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا بھی لگا کہ بہت تھوڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔"
تاہم صدر بشارالاسد کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے حزب مخالف کے مطالبے کو اکثر مبصرین بھی یہ کہہ کر تقریباً ناممکن قرار دے چکے ہیں کہ شام کی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔
جمعہ کو جنیوا میں براہیمی نے صحافیوں کو بتایا کہ بات چیت کا اگلا دور دس فروری کو ہو گا۔ لیکن شام کی حکومت نے تصدیق نہیں کی کہ وہ ان میں شرکت کرے گی یا نہیں۔
خصوصی ایلچی کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان "خلیج بدستور وسیع ہے اور اس بارے میں کسی طرح کا بہانہ بنانے کا فائدہ نہیں۔"
براہیمی نے دس نکات پیش کیے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ان پر دونوں فریق متفق ہو جائیں گے لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ ایسا نہ ہو سکا۔
"پیش رفت دراصل بہت ہی سست ہے، لیکن طرفین ایک قابل قبول انداز میں شریک ہوئے۔ یہ ذرا آغاز ہے اور یہ شروعات ایسی ہیں جنہیں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ان آٹھ "مشکل" دنوں میں حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے ایک ہی کمرے میں بیٹھتے رہے جس کے بارے میں ان کے بقول پہلے یہی سوچا جا رہا تھا کہ ایسا ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔
اس سے قبل دونوں فریق علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنس میں مختلف امور پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔
شام کے وزیر خارجہ والید معلم کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کا وفد اصل نمائندہ نہیں اور بہت سے مسلح گروپس پر اس کا اختیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ صدر بشار الاسد کریں گے کہ حکومتی وفد جنیوا واپس جائے گا یا نہیں۔
"وہ پہلے اس ہفتے میں ہونے والی کارروائی پر ہماری رپورٹ کا مطالعہ کریں گے اور اس کے مطابق ہم سے اور حکومت سے تبادلہ خیال کریں گے اور پھر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔"
حزب مخالف کے ترجمان لوئی صافی کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت دوبارہ شروع ہوتی ہے تو اس میں کم ازکم عبوری حکومت کی تشکیل بھی ایجنڈے میں شامل ہونی چاہیے۔
"مجھے یقین ہے کہ یہ ایک بہت مشکل سلسلہ ہے لیکن اس میں سے گزرنا ہے، یہاں گزارا جانے والا ایک ایک لمحہ شام کو بچانے کے لیے بہت اہم ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا بھی لگا کہ بہت تھوڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔"
تاہم صدر بشارالاسد کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے حزب مخالف کے مطالبے کو اکثر مبصرین بھی یہ کہہ کر تقریباً ناممکن قرار دے چکے ہیں کہ شام کی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔