آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز کا کہنا ہے کہ اس کا سب سے ’موزوں‘ راستہ یہی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کو لڑائی سے متاثرہ ملک شام سے کہیں باہر لے جا کر تباہ کیا جائے۔
کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے والے بین الاقوامی ماہرین جمعہ کو یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا انتہائی خطرناک عمل کہاں اور کس طرح کریں۔
’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ (او پی سی ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اس کا سب سے ’موزوں‘ راستہ یہی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کو لڑائی سے متاثرہ ملک شام سے کہیں باہر لے جا کر تباہ کیا جائے۔
شام کی حکومت، جس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات ’او پی سی ڈبلیو‘ کو فراہم کیں، اس رائے سے متفق ہے۔ لیکن کسی ایسے ملک کی تلاش میں جو ان ہتھیاروں کی تلفی کے لیے جگہ فراہم کرے، ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
جمعرات کو ناروے نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ان ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے نیوی اور سویلین بحری جہاز بھیج سکتا ہے۔
اس سے قبل ناروے نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا کہ وہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنی سرزمین پر تلف کرنے کی اجازت دے۔
قبل ازیں ’او پی سی ڈبلیو‘ نے شام کی طرف سے بتائی گئی کیمیائی ہتھیاروں کی 23 تنصیبات میں سے 22 کا دورہ اور تصدیق کی تھی۔
سلامتی کے خدشات کے باعث بین الاقوامی نگران دمشق کے قریب ایک تنصیب کا دورہ نہیں کر سکے۔
شام نے طے شدہ ڈیڈ لائن کے مطابق یکم نومبر تک اُن تمام آلات کو ناکارہ کر دیا تھا جو کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
دمشق کے مضافات میں رواں اگست میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں لگ بھگ 1,400 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور بین الاقوامی برادری نے اس کی ذمہ داری صدر بشار الاسد کی حکومت پر عائد کی تھی۔ اسد حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ حملہ باغیوں نے کیا۔
تاہم اس حملے کے بعد شام کے خلاف ممکنہ امریکی کارروائی روکنے کے لیے روس اور امریکہ کی تیار کردہ ایک قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھی جس کے تحت شام کو اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے ہیں۔
شام میں مارچ 2011 سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب ایک لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اس خانہ جنگی کے باعث 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ (او پی سی ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اس کا سب سے ’موزوں‘ راستہ یہی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کو لڑائی سے متاثرہ ملک شام سے کہیں باہر لے جا کر تباہ کیا جائے۔
شام کی حکومت، جس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات ’او پی سی ڈبلیو‘ کو فراہم کیں، اس رائے سے متفق ہے۔ لیکن کسی ایسے ملک کی تلاش میں جو ان ہتھیاروں کی تلفی کے لیے جگہ فراہم کرے، ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
جمعرات کو ناروے نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ان ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے نیوی اور سویلین بحری جہاز بھیج سکتا ہے۔
اس سے قبل ناروے نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا کہ وہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنی سرزمین پر تلف کرنے کی اجازت دے۔
قبل ازیں ’او پی سی ڈبلیو‘ نے شام کی طرف سے بتائی گئی کیمیائی ہتھیاروں کی 23 تنصیبات میں سے 22 کا دورہ اور تصدیق کی تھی۔
سلامتی کے خدشات کے باعث بین الاقوامی نگران دمشق کے قریب ایک تنصیب کا دورہ نہیں کر سکے۔
شام نے طے شدہ ڈیڈ لائن کے مطابق یکم نومبر تک اُن تمام آلات کو ناکارہ کر دیا تھا جو کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
دمشق کے مضافات میں رواں اگست میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں لگ بھگ 1,400 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور بین الاقوامی برادری نے اس کی ذمہ داری صدر بشار الاسد کی حکومت پر عائد کی تھی۔ اسد حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ حملہ باغیوں نے کیا۔
تاہم اس حملے کے بعد شام کے خلاف ممکنہ امریکی کارروائی روکنے کے لیے روس اور امریکہ کی تیار کردہ ایک قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھی جس کے تحت شام کو اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے ہیں۔
شام میں مارچ 2011 سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب ایک لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اس خانہ جنگی کے باعث 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔