انسانی حقوق کے کارکنوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شام میں جمعہ کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف سرکاری فورسز کی کارروائی میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ہلاکتیں حما، حمص، الیپو اور دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں سمیت شام کے کم از کم چھ شہروں میں ہوئیں۔ واضح رہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کے باوجود صدر بشار الاسد کی حامی فورسز کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جاری کارروائی میں گزشتہ ہفتے سے شدت آگئی ہے۔
ادھر امریکی وزیرِخارجہ ہلری کلنٹن نے شام کی اقتصادی اور سیاسی حمایت کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ "تاریخ میں صحیح فریق کا ساتھ دیں"۔ انہوں نے عالمی برادری سے شام سے تیل اور گیس کی خریداری بھی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
جمعہ کو اپنے بیان میں امریکی وزیرِخارجہ کا کہنا تھا کہ صدر الاسد کی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ان کی حکومت سفارتی مذاکرات میں مصروف ہے۔ انہوں نے اس امریکی موقف کو دہرایا کہ شام کے صدر "اپنے اقتدار کا قانونی جواز کھو بیٹھے ہیں"۔
تاہم ہلری کلنٹن نے شام کے صدر سے اقتدار سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد کی برطرفی کا مطالبہ عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کا حصہ ہونا چاہیے۔
دریں اثناء ترکی کے ذرائع ابلاغ میں آنےو الی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ صدر عبداللہ گل نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے شامی ہم منصب پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں اصلاحات کا نفاذ کریں قبل اس کے کہ "بہت دیر ہوجائے"۔
شام کی حکومت مظاہرین کے خلاف جاری اپنی کارروائی کا یہ کہتے ہوئے دفاع کرتی آئی ہے کہ اس کا مقصد مسلح گروہوں اور دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شام میں رواں برس مارچ سے جاری کریک ڈائون میں 1700 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام میں پیش آنے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق خاصی مشکل ہے کیونکہ شامی حکومت نے غیر ملکی صحافیوں کی ملک میں آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔