شام میں چار برس سے جاری لڑائی کے خاتمے کےمعاملے پر، امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولایمیر پیوٹن نے پیر کے روز اقوام متحدہ میں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کی۔
دونوں سربراہان پیر کی شام ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات کرنے والے ہیں۔
صدر اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران بتایا کہ اتنی ’خون ریزی اور درندگی‘ کے بعد، شام جوں کے توں ماحول کی طرف نہیں پلٹ سکتا۔
اُنھوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو ہٹانے کے لیے ’عبوری دور کے انتظام‘ پر زور دیا۔
تاہم، پیوٹن نے ایک عشرے میں پہلی بار اقوام متحدہ سے خطاب کے دوران، متنبہ کیا کہ یہ ’بڑی غلطی ہوگی‘ اگر اسد حکومت کی طرف سے داعش کے باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں تعاون نہیں کیا جائے گا، جو شام کے رہنما کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
دولت اسلامیہ سے نبردآزما ہونے کے لیے، اُنھوں ایک ’وسیع تر اتحاد‘ کی ضرورت پر زور دیا، جیسا کہ، بقول اُن کے، ہٹلر کے خلاف اتحاد کی طرز پر دوسری جنگ عظیم میں سرگرم عمل رہا تھا۔
اوباما نے کہا کہ شام کی لڑائی کا آسان جواب دستیاب نہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ شامی عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن رہ کر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے سفارت کاری کا استعمال ضروری ہوگا۔
اُنھوں نے اسد کی مذمت کی، جو ’اپنے ہی لوگوں پر بیرل بم برسا رہے ہیں۔۔۔ جو بنی نوع انسان کے خلاف ایک حملے کے مترادف ہے‘۔
صدر اوباما نے مزید کہا کہ شام جیسے المیئے اُن ملکوں میں نہیں ہوا کرتے جہاں ’حقیقی جمہوریت‘ ہے۔
امریکی رہنما نے تمام ملکوں پر زور دیا کہ جنگ اور تنازع کا خاتمہ لایا جائے اور برعکس اس کے، دنیا بھر کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے نئی سفارتی کوششیں کی جائیں۔
اوباما نے کہا ہے کہ اگر ہم آپسی تعاون کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھتے، تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ہم ایک ساتھ مل کر کام کریں گے، تبھی ہم سب مضبوط ہوں گے۔
تاہم، صدر اوباما نے امریکی فوجی طاقت اورشام اور عراق میں داعش کے باغیوں کے خلاف کارروائی کا بھی دفاع کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ کو کبھی ’محفوظ ٹھکانے‘ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اُنھوں نے ایک برس قبل یوکرین کے کرائیمیا کے جزیرے کو ضم کرنے اور مشرقی یوکرین میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر روس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ روس کے خلاف جاری مغربی معاشی تعزیرات ضروری ہیں، کیونکہ کوئی بھی ملک کرائیمیا پر قبضے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
اوباما نے کہا کہ اگر یوکرین کی صورت حال پر آواز بلند نہیں کی گئی تو یہاں جمع کسی بھی ملک میں ایسی ہی حالت پیدا ہوسکتی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے اہل کاروں نے بارہا کہا ہے کہ جب تک اسد اقتدار میں ہیں، تب تک شام میں سیاسی عبوری دور کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اوباما پیوٹن ملاقات کے دوران اس معاملے پر دھیان مرتکز رہے گا، جو کہ جون 2013ء کی جی 8 سربراہ اجلاس کے بعد دونوں کے مابین پہلی باضابطہ بات چیت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ کے بقول، یہ ملاقات روس کی جانب سے کئی بار کی درخواست پر ہو رہی ہے۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہورہی جب روس کی جانب سے شام میں فوجی موجودگی میں اضافے پر امریکی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔