’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے شامی سکیورٹی فورسز سے آبادی والے علاقوں پر اس کے بقول میزائلوں کا بلا امتیاز استعمال بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے شامی سکیورٹی فورسز سے آبادی والے علاقوں پر اس کے بقول میزائلوں کا بلا امتیاز استعمال بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ میں قائم تنظیم نے پیر کے روز کہا کہ اس نے نو ایسے حملوں کی تحقیقات کی ہیں جن میں بظاہر میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔ ان حملوں میں 215 افراد ہلاک ہوئے اور بیشتر حملے حلب شہر اور اس کے ساتھ واقع صوبے میں کیے گئے۔
شام کا سب سے بڑا شہر حلب اُن مقامات میں سے ایک ہے جہاں صدر بشار الاسد کے حامیوں اور باغیوں کے درمیان خانہ جنگی جاری ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سات حملے ایسے مقامات پر ہوئے جن کے نزدیک کوئی فوجی اہداف موجود نہیں تھے، اور ان کی وجہ سے ’’نمایاں شہری نقصانات ہوئے جب کہ بظاہر کوئی عسکری فائدہ حاصل نہیں ہوا‘‘۔
تنظیم نے میزائلوں کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی علاقے میں لڑائی میں شریک مخالفین موجود بھی ہوں تو بھی اُنھیں ان ہتھیاروں سے بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ تنظیم کے مطابق میزائل حملوں کا نتیجا شہریوں کے لیے ’’تباہ کن‘‘ نکلا۔
دریں اثنا، بشار الاسد نے باغیوں کے قلع و قمع کرنے کے عہد کو دہرایا ہے۔
اتوار کو اپنی تقریر میں اُنھوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کا حل سیاست سے نہیں نکالا جا سکتا، اور اس سے ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سے نمٹنا چاہیئے۔
شامی حکومت بشار الاسد کے مخالف باغیوں کے لیے بالعموم ’’دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی آئی ہے۔
شام میں جاری لڑائی کا آغاز مارچ 2011 میں بشار الاسد کے خلاف مظاہروں سے ہوا تھا، جو آنے والے دنوں میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔ اب تک لڑائی میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہیں۔
امریکہ میں قائم تنظیم نے پیر کے روز کہا کہ اس نے نو ایسے حملوں کی تحقیقات کی ہیں جن میں بظاہر میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔ ان حملوں میں 215 افراد ہلاک ہوئے اور بیشتر حملے حلب شہر اور اس کے ساتھ واقع صوبے میں کیے گئے۔
شام کا سب سے بڑا شہر حلب اُن مقامات میں سے ایک ہے جہاں صدر بشار الاسد کے حامیوں اور باغیوں کے درمیان خانہ جنگی جاری ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سات حملے ایسے مقامات پر ہوئے جن کے نزدیک کوئی فوجی اہداف موجود نہیں تھے، اور ان کی وجہ سے ’’نمایاں شہری نقصانات ہوئے جب کہ بظاہر کوئی عسکری فائدہ حاصل نہیں ہوا‘‘۔
تنظیم نے میزائلوں کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی علاقے میں لڑائی میں شریک مخالفین موجود بھی ہوں تو بھی اُنھیں ان ہتھیاروں سے بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ تنظیم کے مطابق میزائل حملوں کا نتیجا شہریوں کے لیے ’’تباہ کن‘‘ نکلا۔
دریں اثنا، بشار الاسد نے باغیوں کے قلع و قمع کرنے کے عہد کو دہرایا ہے۔
اتوار کو اپنی تقریر میں اُنھوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کا حل سیاست سے نہیں نکالا جا سکتا، اور اس سے ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سے نمٹنا چاہیئے۔
شامی حکومت بشار الاسد کے مخالف باغیوں کے لیے بالعموم ’’دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی آئی ہے۔
شام میں جاری لڑائی کا آغاز مارچ 2011 میں بشار الاسد کے خلاف مظاہروں سے ہوا تھا، جو آنے والے دنوں میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔ اب تک لڑائی میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہیں۔