شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اسلامی دنیا کسی ایسی حکومت کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی جو اپنی توپوں اور ٹنکوں کے استعمال سے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرے
جمعرات کے روز آرگنازئشن آف اسلامک کانفرنس مکہ میں مسلم راہنماؤں کے ایک دو روزہ اجلاس کے اختتام پر شام کی رکنیت معطل کر دی۔ حتمی بیان میں شام کے صدر کی جانب سے اپنے لوگوں کے خلاف لیتھل فورس کے استعمال کی مذمت کی گئی۔
اپنے اختتامی بیان میں گروپ کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوگلو نے کہا کہ شام کی او آئی سی کی رکنیت کی معطلی سے شام کی حکومت کو ایک سخت پیغام پہنچا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے سے یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اسلامی دنیا کسی ایسی حکومت کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی جو اپنی توپوں اور ٹنکوں کے استعمال سے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرے اور بچوں اور ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لیے طیارے استعمال کرے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی یہ بتارہی ہے کہ وہ شام کے تنازعے کے ایک پر امن حل کی حمایت کرتی ہے اور مزید کسی بھی خونریزی کی مخالفت کرتی ہے ۔
سعودی وزیر خارجہ نظار بن عبید مدنی نے اختتامی سیشن کو بتایا کہ اس فیصلے پر او آئ سی کے اراکین کے درمیان بہت کم اختلاف رائے تھا ۔
انہوں نے کہ شام کے بارے میں او آئی سی کے فیصلے سے اعلامیے کے نکات پر ایک اتفاق رائے کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ کہ شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے پر بھی بہت کم اختلاف رائے تھا ۔
لیکن ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے جو صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ا ن فیصلوںٕ کو غیر منصفانہ قرار دیا
انہوں نےکہا کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے شام کو اس سربراہی اجلاس میں اپنے موقف کے دفاع اور گفتگو کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے تھا۔
سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ، نے جو صدر ااسد کے شدید نقاد ہیں ، 57 رکنی او آئی سی کے اس اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ عرب لیگ نے شام کو گزشتہ نومبر میں معطل کر دیا تھا۔
اپنے اختتامی بیان میں گروپ کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوگلو نے کہا کہ شام کی او آئی سی کی رکنیت کی معطلی سے شام کی حکومت کو ایک سخت پیغام پہنچا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے سے یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اسلامی دنیا کسی ایسی حکومت کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی جو اپنی توپوں اور ٹنکوں کے استعمال سے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرے اور بچوں اور ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لیے طیارے استعمال کرے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی یہ بتارہی ہے کہ وہ شام کے تنازعے کے ایک پر امن حل کی حمایت کرتی ہے اور مزید کسی بھی خونریزی کی مخالفت کرتی ہے ۔
سعودی وزیر خارجہ نظار بن عبید مدنی نے اختتامی سیشن کو بتایا کہ اس فیصلے پر او آئ سی کے اراکین کے درمیان بہت کم اختلاف رائے تھا ۔
انہوں نے کہ شام کے بارے میں او آئی سی کے فیصلے سے اعلامیے کے نکات پر ایک اتفاق رائے کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ کہ شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے پر بھی بہت کم اختلاف رائے تھا ۔
لیکن ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے جو صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ا ن فیصلوںٕ کو غیر منصفانہ قرار دیا
انہوں نےکہا کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے شام کو اس سربراہی اجلاس میں اپنے موقف کے دفاع اور گفتگو کے لیے مدعو کیا جانا چاہیے تھا۔
سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ، نے جو صدر ااسد کے شدید نقاد ہیں ، 57 رکنی او آئی سی کے اس اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ عرب لیگ نے شام کو گزشتہ نومبر میں معطل کر دیا تھا۔