سلامتی کونسل: شام میں فوجی مبصرین بھیجنےکی منظوری

ہفتے کے دِن ہونے والی رائے شماری کے دوران سلامتی کونسل نےمتفقہ طور پر 30غیر مسلح فوجی مبصرین پر مشتمل ایک پیشگی دستے کی تعیناتی کے اختیارات دے دیے ہیں، جو کچھ ہی دِنوں کے اندر دمشق روانہ ہوجائے گا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نےایک پیشگی دستہ شام روانہ کرنے کی حمایت میں قرارداد منظور کرلی ہے، جہاں سے حکومت اورحزب مخالف کے مابین غیرمؤثرجنگ بندی کے نتیجے میں تشدد کے واقعات میں تیزی آنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

ہفتے کے دِن متفقہ رائے دہی کے ذریعے سلامتی کونسل نے 30غیر مسلح فوجی مبصرین پر مشتمل ایک پیشگی دستے کی شام میں تعیناتی کے اختیارات جاری کردیے ہیں۔ یہ نگران کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر دمشق روانہ ہوجائیں گے۔

یہ گروپ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی کوفی عنان کی ثالثی میں پیش کیے جانے والےامن منصوبے پر عمل درآمد کے بارے میں اپنی رپورٹ دے گا۔ اِس میں حکومتی افواج کے شہری علاقوں سےانخلا اور اختلافِ رائے رکھنے والوں پر پُر تشدد کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اِس میں باغیوں سے جنگ بند کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

جمعرات کو شامی افواج جنگ بندی پر رضامند ہوگئی تھیں، لیکن دونوں، حکومتی اور اپوزیشن فورسز کا کہنا ہے کہ حملےاب بھی جاری ہیں۔


انسانی حقوق سے متعلق گروہوں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ہفتے کو کم از کم پانچ افراد ہلاک کر دیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حلب میں فوج کی طرف سے جنازے کےایک جلوس پرفائر کھولے جانے کے ایک واقع میں چار افراد ہلاک ہوگئے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حمص میں حکومتی گولہ باری کے باعث کم از کم ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے۔

برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے بتایا ہے کہ ملک کے جنوب میں واقع صوبہٴ درعا میں باغیوں کی طرف سے کیے گئے ایک حملے میں دو فوجی ہلاک ہوگئے۔

ہفتے کے دِن حکومت نے ’مسلح دہشت گروہوں‘ پر حکومتی افواج اور سویلینز پر حملوں کا الزام عائد کیا ۔

اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ کے فوری بعد، برطانوی سفیر مارک لیال گرانٹ نے کہا کہ شام کی صورتِ حال میں بہتری لانے کا ایک مختصر موقع اب بھی دستیاب ہے۔

شام کے ایک قریبی حامی روس نے کہا ہے کہ امن منصوبہ ایک نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ ایمبسڈر وٹالی چرکن نے دونوں فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔

سرگرم کارکنوں نےجمعے کے دِن بتایا ہے کہ شام کےاُن متعدد مقامات پر جہاں حکومتی افواج نے مخالفین کے احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلا دی تھیں ، احتجاج میں تیزی آچکی ہے۔

ہفتے کو ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، سیلکو اُنل نے مظاہرین کے خلاف پُر تشدد کارروئیاں کرنے کے بارے میں موصولہ خبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔

حکومت شام نے کہا ہے کہ وہ صرف ’ہتھیاربند دہشت گردوں‘ کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کا جواب دے گی۔

شام کے سرکاری میڈیا نے ہفتے کو جاری کی جانے والی اپنی رپورٹوں میں فوجی اور سویلین ہلاکتوں میں اضافے کا ذمہ دار ’ دہشت گرد گروپوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں‘ کو قرار دیا۔