پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عملی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے عوامی تحریک کے چیئرمین کا عہدہ بھی چھوڑ دیا ہے۔
لاہور میں عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹریٹ میں بذریعہ ویڈیو لنک نیوز کانفرنس کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ وہ چیئرمین کا عہدہ اپنے بیٹے کو منتقل کرنے کے بجائے عوامی تحریک کی سپریم کونسل کو فیصلے کا اختیار دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ وہ تصنیف و تالیف کے کام کی طرف زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی جاری رکھ سکیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کو انصاف دلوانے کے لیے قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔ ان کے بقول یہ سیاست کا نہیں بلکہ ایمان کا معاملہ ہے۔
خیال رہے کہ 17 جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ مبینہ طور پر تصادم کے نتیجے میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 کارکن ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار اس وقت کی پنجاب حکومت، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ٹھہرایا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014 میں عمران خان کے ساتھ مل کر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا تھا جسے انقلاب مارچ کا نام دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے دو ماہ تک پاکستان کی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا بھی دیا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے واضح کیا ہے کہ وہ ادارہ منہاج القرآن کے سر پرست اعلیٰ کے طور پر کام جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے رفاعی اور علمی سرگرمیوں کے لیے ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد 1981 میں رکھی تھی۔ جب کہ سیاسی محاذ پر پاکستان عوامی تحریک کے نام سے جماعت 1989 میں بنائی گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں دھرنا
ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کی سیاست میں اس وقت اہمیت اختیار کر گئے تھے جب جنوری 2013 میں انہوں نے انتخابی اصلاحات اور سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر القادری کے قیام اور دیگر ضروریات کے لیے ایک خصوصی کنٹینر بھی تیار کیا گیا تھا جو سوشل میڈیا اور ملکی ذرائع ابلاغ پر کافی زیر بحث رہا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کو ازسر نو تشکیل دیا جائے۔
ان کا الزام تھا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر میں شفافیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا لہذٰا اس طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری ہزاروں کارکنوں کے ہمراہ کئی روز تک اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے موجود رہے۔ بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد انہوں نے دھرنا ختم کیا۔
نواز شریف حکومت کے خلاف سخت موقف
ڈاکٹر طاہر القادری نے اگست 2014 میں دوبارہ اسلام آباد کی جانب مارچ کیا۔ اس مرتبہ انہیں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ بھی حاصل رہا۔
ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے لیے انصاف کے حصول جب کہ عمران خان 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
اسلام آباد کی پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے واقع ڈی چوک پر دونوں سیاسی جماعتوں کے دھرنوں نے وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی مفلوج کر دیا تھا۔
دو ماہ بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت اور بعض یقین دہانیوں کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا دھرنا ختم کر دیا تھا۔ تاہم عمران خان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اپنا دھرنا ختم کیا تھا۔
گزشتہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد وہ سیاسی منظر نامے سے غائب تھے ان کے قریبی افراد کا کہنا تھا کہ وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔