رسائی کے لنکس

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے نئی 'جے آئی ٹی' بنانے کا فیصلہ


عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بھی بدھ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ (فائل فوٹو)
عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بھی بدھ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ (فائل فوٹو)

دورانِ سماعت پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کی حمایت کی اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب حکومت کی جانب سے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کے فیصلے پر عوامی تحریک کی درخواست نمٹا دی ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے بدھ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوبارہ تحقیقات اور نئی جے آئی ٹی بنانے کے لیے دائر عوامی تحریک کی درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب پیش ہوئے اور بتایا کہ پنجاب حکومت نے سانحۂ ماڈل ٹاوٴن پر نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے بقول حکومت چاہتی ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں۔

سپریم کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے بیان کی روشنی میں عوامی تحریک کی درخواست نمٹادی۔

اس سے قبل سماعت کے دوران عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور خود دلائل دیتے ہوئے عدالت کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ واقعے کا مقدمہ درج نہ ہونے پر انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔

طاہرالقادری نے واقعے کی جے آئی ٹی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی متاثرہ شخص یا زخمی کا بیان تفتیش میں ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ایسی تفتیش کو تفتیش کیسے کہا جا سکتا ہے؟ یتیم لوگ کہتے تھے ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔

طاہر القادری عدالت میں آب دیدہ ہو گئے اور کہا کہ کیا ہم فلسطینی تھے جو ہم پراسرائیلی فوج نے گولیاں چلائیں؟

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ٹرائل دوبارہ صفر کی سطح پر آگیا ہے۔ چار سال ہمارے ملزم اقتدار میں تھے۔ اس کیس میں تفتیش کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ پولیس نے پہلی جے آئی ٹی میں اندراجِ مقدمہ کی درخواست تسلیم کی۔ دو ماہ دھرنا دینے کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی۔ لیکن دوبارہ تفتیش میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا ذکر نہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کا حکم دیا تھا۔ اس سے زیادہ تیز انصاف کیا دے سکتے تھے؟

طاہر القادری نے کہا کہ یہ جاننا ضروری تھا کہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ کڑیاں نہ ملائی جائیں تو تفتیش ہی نہیں ہوگی۔ ہمارے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی۔ ہم بنیادی طور پر ازسرِ نو تفتیش کرانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے طاہر القادری سے کہا کہ آپ نے دھرنا دے دیا، لیکن عدالتوں میں نہیں آئے۔ عدالت سمیت ہر کام کو دھرنا دے کر مفلوج کیا گیا۔ آپ کو پہلے ہی اس عدالت میں آنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس آپ جاتے تھے، وہ عدلیہ سے بڑے نہیں۔ آپ ان کے پاس گئے جن کا مقدمے سے تعلق نہیں تھا۔ دھرنے والوں نے عدالت پر پھٹی پرانی قمیضیں لٹکائیں۔ کیا یہ عدالت کی تکریم ہے؟ ججز کا بھی راستہ روکا گیا۔ آپ نے مناسب قانونی حکام سے رجوع نہیں کیا۔

اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عوامی تحریک جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئی۔ جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔

طاہر القادری نے جواب دیا کہ گرفتاریاں ہو رہی تھیں، جے آئی ٹی میں کون اور کیسے جاتا؟ بار بار کہا کہ پنجاب حکومت اور وزیرِ اعظم ہمارے ملزم ہیں۔ کیا ڈی ایس پی وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلٰی کے خلاف تفتیش کر سکتا ہے؟ الزام چاہے غلط ثابت ہو جائیں لیکن تفتیش ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں ہمارے مرکز کے گرد بیریئر ہٹانے کے لیے ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا تھا، بلکہ اصل ایجنڈا لانگ مارچ کو روکنا تھا۔ نئی جے آئی ٹی بنائی جائے۔ تمام لوگ نئی جے آئی ٹی میں پیش ہوں تو بہتر تفتیش ہو سکے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی آزاد تھی یا نہیں اور آپ کا نکتہ ہے کہ تحقیقات شفاف نہیں ہوئیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کیا عدالت شفاف ٹرائل کے حکم کا اختیار نہیں رکھتی؟ ریاست مجرمانہ طور پر ملوث ہو تو کیا عدالت حکم نہیں دے سکتی؟

دورانِ سماعت پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کی حمایت کی اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے پولیس نے آپریشن کیا تھا جس کے دوران مزاحمت پر پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

یہ واقعہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے خاصی مشکلات کا سبب بنا تھا کیوں اس کے بعد ہی عوامی تحریک نے اسلام آباد میں کئی روز تک دھرنا دیا تھا جس کی وجہ سے حکومتی مشینری مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG