بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں 17ویں صدی کے مقبرے تاج محل کی "حقیقی تاریخ کا مطالعہ" کرنے کے لیے'فیکٹ فائنڈنگ' کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شمالی بھارت کے شہر ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا تعلقات کے سربراہ رجنیش سنگھ نے کہا کہ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا تھا، لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی "سائنسی ثبوت" نہیں ہے۔
سنگھ نےتاج محل کی 'حقیقی تاریخ' کے لیے ہندوستان کے سپریم کورٹ میں دائراپنی درخواست میں کہا ہے کہ بھارت کی" نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ" سے معلومات کا حق رکھتے ہوئے جب سوال کیا گیا تو ، انہوں نے بتایا کہ اس بات کی تصدیق کے لیےکوئی ابتدائی معلومات نہیں ہیں کہ شاہ جہاں نے تاج محل کی تعمیر کی تھی ۔
سنگھ نے اپنی درخواست میں کہا کہ اسی طرح کا سوال" آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا "سے بھی کیا گیا لیکن وہ بھی تاج محل کی بنیاد کے بارے میں ،اطمینان بخش جواب فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
سنگھ نے اپنی درخواست میں لکھا کہ عدالت کو تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین پر مشتمل حقائق معلوم کرنے والی ایک کمیٹی بنانی چاہیے، جو تاج محل کی اصل تاریخ کا مطالعہ کرے، اس کی وضاحت کرے اور یادگار کے بارے میں پھیلے تنازع کو ختم کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سنگھ نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست اس کے بعد داخل کی جب بارہ مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس کی ایک درخواست کو مسترد کردیا گیا جس میں اس نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ کو ہدایت دے کہ وہ تاج محل کے کچھ سیل بند کمروں کو کھول کر دیکھیں کہ آیا وہاں کوئی ہندو مورتی تو موجود نہیں ہے۔
دائیں بازو کے ہندو گروپ بھی اس کے بعد سے اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ، تاج محل ایک ہندو مندر ہے۔ سن 1989 میں ایک ہندوستانی مصنف پی این۔ اوک نے "تاج محل: سچی کہانی،نام کی کتاب شائع کی۔ اپنی کتاب میں اوک نے لکھا تھا کہ اسے 12ویں صدی میں ایک ہندو مندر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اسے تیجو مہالیہ یا بھگوان شیو کا محل کہا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ جہاں نے 17ویں صدی میں تیجو محالیہ کو تاج محل میں تبدیل کر دیا ، بالکل اسی طرح جس طرح مغل حکمران ، ہندو مندروں کو تباہ کر تے رہے اور ان میں سے اکثر کو مساجد اور اسلامی تعمیر میں تبدیل کر دیا۔
گروپ مطالبہ کر تا ہے کہ تاج محل کو ہندوؤں کو منتقل کیا جائے تاکہ وہ اسے "واپس" ہندو دیوتا شیو کے مندر میں تبدیل کرکے وہاں پوجا شروع کریں۔
سن 2017 میں بھی وکلاء کے ایک گروپ نے آگرہ کی ایک عدالت میں مغل دور کے مقبرے کو جو ،یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے ، ہندو مندر قرار دینے کے لیے عدالت سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔
ہفتوں بعد عدالت میں ایک بیان میں آثار قدیمہ کے محکمے نے کہا کہ تاج محل درحقیقت ایک مسلم مقبرہ تھا جسےمغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی مرحومہ بیوی ممتاز محل کی یاد گار کے طور پر بنایا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قرون وسطی کی تاریخ کے پروفیسر سید علی ندیم رضوی کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کی تصدیق کہ شاہ جہاں نے اس کی تعمیر کی تھی ، فارسی زبان کی سرکاری تواریخ اور اس دور کے دیگر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ 17ویں صدی کے کچھ یورپی مسافروں جیسے جین بپٹسٹ ٹورنیئر، نکولاؤ منوچی اور فرانسواں برنیئر کے تحریر کردہ تاریخی واقعات اور سفرناموں سے ہوتی ہے۔
سید رضوی کا کہنا تھا کہ "سفید سنگ مرمر سے بنا تاج محل ایک عام ایرانی پلان کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ کسی بھی دور میں سفید سنگ مرمر سے بنا کوئی مندر نہیں دکھا سکتے، جس کے اوپر گنبد لگا ہوا ہو اور ہندوستان میں اس طرح کے منصوبے کے تحت بنایا گیا ہو۔ اگر کچھ لوگ تاج محل کو مندر یا ہندو عمارت کہتے ہیں تو یہ مضحکہ خیز ہےاور یہ دعویٰ افسانوی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانندنے وائس آف امریکہ کو بتایا: "بیرونی دنیا کے لوگوں کی نظر میں تاج محل ہندوستان کی پہچان ہے۔"
اپوروانند نے کہا "ایک مسلمان کی طرف سے بنائی گئی یہ بھارت کی شناخت ایک ایسی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے جو ہندوتوا کی سیاست کے پیروکاروں کے لیے نفرت انگیزہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسے اصل میں ہندوؤں نے بنایا تھا۔
"وہ (ہندتوا گروپس) یہ قبول نہیں کر سکتے کہ بھارتی ثقافت کی تشکیل مسلمانوں نے کی ہے۔ ان کے لیے سب کچھ ابتدا میں ہندو تھاجسے بعد میں اسلامی شکل میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہ صرف ان کی اصل ہندو حیثیت کو بحال کرنا چاہتے ہیں"۔