کلبوں میں رات گئے تک پارٹیوں میں شرکت کرنے، سینماگھروں کی آرام دہ نششتوں پر ٹانگیں پھیلا کر اپنی پسند کی فلمیں دیکھنے اور چہرے پر ماسک لگائے بغیر عوامی مقامات پر جانے کے مناظر اب یورپ اور امریکہ میں بتدریج عام ہوتے جا رہے ہیں۔
کئی ملک آہستہ آہستہ کرونا وبا سے منسلک پابندیاں نرم کر رہے ہیں، جن کا خیال ہے کہ اومیکرون اپنی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
کرونا وائرس کی عالمگیر وبا کو پھیلے ہوئے تقریباً دو سال کا عرصہ ہو چکا ہے جس میں انتہائی تیز رفتاری سے پھیلنے والا ویرینٹ اومیکرون بھی شامل ہے۔
اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں صرف دس ہفتوں میں اومیکرون نے 9 کروڑ لوگوں کو متاثر کیا، جب کہ اس سے قبل 2020 میں کرونا وائرس کے دیگر ویرینٹس نے ایک سال کی پوری مدت کے دوران اتنے ہی لوگوں کو اپنا ہدف بنایا تھا۔
عالمی ادارہ صحت نے اس ہفتے کہا ہے کہ اب کچھ ملک، اگر ان کے ہاں وائرس کے خلاف مدافعت کی سطح بلند ہو چکی ہے، ان کے صحت کا نظام مضبوط ہے اور وہاں وبا کے اشاریے نیچے جا رہے ہیں، تو وہ احتیاط کے ساتھ پابندیاں نرم کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: فائزر اومیکرون کے لیے نئی ویکسین کی ٹیسٹنگ شروع کر رہا ہےعالمی ادارہ صحت نے کہا ہے 24 سے 30 جنوری کے ہفتے کے دوران دنیا بھر میں وائرس کے نئے کیسز کی تعداد اس سے قبل کے ہفتے کے برابر تھی۔ تاہم اس دوران 59 ہزار اموات ہوئیں جو 9 فی صد اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔
امریکہ کے کئی شہروں میں مقامی حکام، اسکولوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ باقی جگہوں پر چہرے کے ماسک کی پابندیاں اٹھا رہے ہیں ۔ تاہم نیویارک میں اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح انگلینڈ، فرانس، آئرلینڈ اور نیدرلینڈز سمیت کئی یورپی ملکوں میں پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں۔
ناورے نے دس سے زیادہ افراد کے اجتماع، سماجی فاصلہ رکھنے سمیت کئی پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔ ناورے کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی معمول کی زندگیوں کی جانب واپس لوٹ جائیں۔ اسی طرح ڈینمارک نے بھی زیادہ تر پابندیاں ختم کر دی ہیں۔
اومیکرون کو کمتر نہ سمجھا جائے، ماہرین
کئی ممالک کی جانب سے وائرس سے بچاؤ کے لیے عائد کردہ پابندیاں اٹھانے کی وجہ اومیکرون کا پھیلاؤ ہے جو وبا کے سابقہ ویرینٹس کی جگہ لے چکا ہے۔ یہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں کم ہلاکت خیز ہے۔ تاہم ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ وہ وائرس کو کمتر سمجھتے ہوئے اس کے خلاف اپنی احتیاطی تدابیر ترک نہ کریں کیونکہ اس کے کسی نئے ویرینٹ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا جو کہیں زیادہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریسس نے کہا ہے کہ ہم اس بارے میں فکر مند ہیں کہ کچھ ملکوں میں یہ بیانیہ اپنی جگہ بنا رہا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس ویکسین ہے اور چونکہ موجودہ ویرینٹ اومیکرون تیز تر پھیلاؤ کے باوجود زیادہ خطرناک نہیں ہے ، اس لیے اس کی منتقلی کو روکنا نہ توممکن ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی امور کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ریان نے انتباہ کیاہے کہ سیاسی دباؤ کے پیش نظر کچھ ملک پابندیاں اٹھانے میں بہت جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ وبا کے غیر ضروری پھیلاؤ، وبا کی شدت میں غیر ضروری اضافے اور اموات کی تعداد میں غیر ضروری اضافے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
ایک جانب جہاں یورپ اور شمالی امریکہ میں کرونا وائرس کی پابندیاں بتدریج نرم کی جا رہی ہیں، وہاں کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں حالیہ دنوں میں پابندیاں بڑھائی بھی گئی ہیں، جس کی ایک نمایاں مثال چین ہے۔ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے پیش نظر چینی حکام پابندیوں کے سلسلے میں کوئی رعایت نہ برتنے کے اصول پر چل رہے ہیں۔ وہاں جیسے ہی بعض مقامات پر وائرس کے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے، انہوں نے فوری طور پر سخت لاک ڈاؤن اور قرنطینہ کی پابندیاں عائد کر دیں۔
جنوبی افریقہ نے، جہاں سائنسی تجزیوں کے مطابق وبا کے خلاف مدافعت 60 سے 80 فی صد تک ہوچکی ہے، چہرے کے ماسک کو ابھی تک لازمی قرار دیا ہوا ہے۔ جاری پابندیوں کے تحت وہاں مارچ 2020 میں بند ہونے والے اسکول اب پہلی بار کھولے گئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کی پبلک ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈاکٹر انیتا موسام کا کہنا ہے کہ ہم وباسے مقابلے کے معاملے میں جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، وہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ کووڈ۔19 اب ہمارے ساتھ ہی رہے گا، چاہے اس کی اقسام ہلکی شدت کی ہی کیوں نہ ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ وبا کس طرح پھیلتی ہے، اس لیے اب ہمیں لوگوں میں ایک ایسا توازن لانے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی زندگیاں جی سکیں۔