کیا طالبان طاقت ور فریق کے طور پر افغان حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرسکتے ہیں؟

ہرات، افغانستان میں سابق افغان مجاہدین طالبان کے خلاف افغان حکومت کی حمایت میں ہتھیار بند ہیں، فوٹو رائٹرز، دس جولائی 2021

افغانستان میں طالبان کی جانب سے جہاں ملک کے ایک بڑے علاقے پر قبضے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، وہیں ملک میں پرتشدد کارروائیوں کے ردعمل میں ہزاروں افراد کے طالبان کے کنٹرول والے علاقے چھوڑنے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔ اس صورت حال کو افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی بےحد غور سے دیکھا جا رہاہے۔ تاہم واشنگٹن ڈی سی میں افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے امریکی افواج کے انخلا پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ خطے کے کسی بھی ملک کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔

گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس (یو ایس آئی پی) میں ایک نشست کے دوران امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے طالبان کو واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کسی بھی فریق کی جانب سے کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ پاکستان کو منظور نہیں ہوگا اور یہ کہ فریقین کو مل بیٹھ کر تصفیہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ خطے کے دوسرے ممالک افغانستان میں امن کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ کو طالبان کی پیش قدمی پر تشویش، القاعدہ و داعش کے ابھرنے کا بھی خدشہ

واشنگٹن ڈی سی کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک امریکی تجزیہ کار مارون وائن بام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے کا کوئی ملک نہیں چاہتا کہ طالبان اقتدار میں آئیں۔ کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ جس قسم کی عسکری انتہاپسندی کی طالبان نمائندگی کرتے ہیں، وہ متعدی ہے اور جلد ہی پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ ان کے مطابق اسی لیے خطے کے تمام ممالک نے طالبان سے رابطے قائم کیے ہیں تاکہ اگر وہ طاقت حاصل کریں تو انہیں ایسا کرنے سے روکا جا سکے۔

واشنگٹن ڈی سی ہی کے ایک اور تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ امریکہ اس وقت خطے کے دوسرے ممالک کی خوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ پورے خطے کے لیے قابل قبول حل تلاش کریں۔ جب کہ امریکہ اب بھی سفارتی طور پر خطے میں کام کرتا رہے گا۔

واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن حاصل کرنے کے لیے امریکہ کو انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی فوج کا انخلا: افغان خواتین خوف کا شکار کیوں؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا افغان امن مذاکرات سے مطابقت رکھتا ہو۔ پاکستان جلد بازی میں کئے گئے امریکی انخلا سے اتفاق نہیں رکھتا۔

مارون وائن بام کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں طالبان کے متعلق حقیقت پسندی یہ ہے کہ طالبان اس وقت جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں وہ نہ صرف کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ کابل کا محاصرہ بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نجی طور پر امریکی فوج کی جانب سے جو معلومات فراہم کی جا رہی ہیں ان کے مطابق افغانستان میں حالات تشویشناک ہیں۔

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ امریکہ کا خیال ہے کہ اب القاعدہ اور داعش اس قدر طاقت ور نہیں ہیں کہ امریکی افواج اب افغانستان میں موجود رہیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور واشنگٹن ڈی سی میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینئیر فیلو حسین حقانی کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ امریکی انٹیلی جنس سروسز طالبان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کی موجودگی کے حوالے سے خدشات رکھتی ہیں اور امریکی افواج بھی ابھی مزید افغانستان میں رہنے کو ترجیح دیتیں لیکن امریکی عوام کی رائے اب تبدیل ہو چکی ہے اور وہ اس ’’ہمیشہ رہنے والی جنگ‘‘ میں امریکی شمولیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان اس بار افغان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کر سکتا: معید یوسف

یاد رہے کہ پچھلے مہینے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں طالبان کے القاعدہ کے ساتھ رابطے برقرار ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل چاہتا تھا تو اسے دوحہ میں کابل حکومت کو مذاکرات کی سربراہی کرنے دینا چاہئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اب بھی اگر افغانستان کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ طالبان کے القاعدہ سے تعلقات ختم نہ کرنے کی بنیاد پر اپنے طالبان کے ساتھ معاہدے سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔

بین الافغان امن مذاکرات کی سست رفتاری پر بات کرتے ہوئے مارون وائن بام کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس بات کا بالکل بھی امکان نہیں تھا کہ امن مذاکرات کے ذریعے اقتدار کے اشتراک کا بندوبست ہو سکتا ، جس میں دونوں فریق ایک مشترکہ سیاسی نظام سے مطمئن ہوتے۔ ان کے مطابق طالبان کو یقین تھا کہ اگر وہ عسکری دباؤ برقرار رکھیں تو وہ ایک ایسا معاہدہ حاصل کر سکتے ہیں جس کے ذریعے انہیں سیاسی غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کی افغان پالیسی میں 'تبدیلی'، سیاسی بیان بازی یا ریاستی فیصلہ؟

حسین حقانی نے کہا کہ طالبان کا مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ اس کے لیے صرف اس لیے راضی ہوئے تھے کہ امریکہ افغانستان سے واپس چلا جائے گا۔ ان کے مطابق طالبان امریکہ سے اپنے معاہدے کو اسلامی امارت کی بحالی خیال کرتے ہیں اور اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ اس لیے انہیں مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے مطابق امریکہ اس بات کو جتنی جلدی سمجھ لے، اتنا ہی بہتر ہے تاکہ حقیقت کے مطابق عمل کیا جاسکے۔

مائیکل کوگل مین نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ طالبان اپنی تمام بڑی کامیابیوں کے بعد افغان حکومت کے ساتھ طاقت ور فریق کے طور پر مذاکرات کی پیشکش کریں گے۔

مارون وائن بام نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ جلد ہی طالبان کی جانب سے ایک امن معاہدے کی پیشکش کی جا سکتی ہے جو کابل حکومت کے لئے قبول کرنا مشکل ہوگی، اور امریکہ بھی شاید اسے پسند نہ کرے۔ لیکن بقول ان کے امریکہ کے پاس اپنی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے سازگار حالات موجود نہیں ہوں گے۔