|
طالبان حکام نے حالیہ عرصے میں افغانستان میں ہونے والے ہلاکت خیز حملوں میں ملوث داعش کے چند اہم ارکان کو گرفتار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر اس گروپ کو پناہ فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال عمومی طور پر بہتر ہوئی ہے۔تاہم حالیہ عرصے میں داعش کا ایک علاقائی گروپ، جسے اسلامک اسٹیٹ خراسان کہا جاتا ہے، طالبان کی حکمرانی کے لیے ایک چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کے لیے ملک گیر مہم کے نتیجے میں مقامی طور پر تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اس سال موسم گرما میں داعش خراسان گروپ نے کئی بم دھماکے اور مسلح حملے کیے ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی اسپیشل فورسز نے شورش پسند گروپ داعش کے کئی اہم ارکان کو پکڑا ہے جنہوں نے اس ماہ کابل میں ہونے والے ایک خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ترجمان نے کہا کہ خودکش حملہ آور نے پاکستان میں موجود ایک تربیتی کیمپ میں ٹریننگ لی تھی جس کے بعد وہ افغانستان میں داخل ہوا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ سلسلے وار چھاپوں میں گرفتار ہونے والے کئی افراد حال ہی میں پاکستان سے واپس آئے ہیں۔
مجاہد نے بتایا کہ افغانستان میں کریک ڈاؤن سے سنی جہادی گروپ کے ارکان بھاگ کر پاکستان چلے گئے تھے جہاں انہوں نےاپنے نئے آپریشنل مراکز اور تربیتی کیمپ قائم کر لیے ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ داعش کے جنگجو اپنے نئے مراکز سے افغانستان کے اندر اور کئی دوسرے ملکوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات بتدریج خراب ہوئے ہیں۔ تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان ترجمان کے اس بیان سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد ملک میں بڑھتے ہوئے پرتشدد حملوں کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت وہاں پناہ لینے والے پاکستانی طالبان باغیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
SEE ALSO: داعش خراسان کا افغانستان میں 15 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰپاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر مجاہد کے بیان پر ردعمل کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا ہے۔
پاکستان، چین اور روس نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر الگ سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں افغانستان میں دہشت گردی سے منسلک سیکیورٹی کی صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کی گئی تھی۔
بیان میں کئی گروپوں کا ذکر کیا گیا تھا جن میں اسلامک اسٹیٹ(داعش) بھی شامل ہے، جو ان کے بقول افغانستان میں مقیم ہیں اور وہ علاقائی اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسلامک اسٹیٹ خراسان کا قیام 2015 میں ہواتھا اور اگست 2021 میں کابل کے ہوائی اڈے سے امریکی انخلا کے موقع پر افراتفری کے دوران اس گروپ نے بم دھماکہ کیا تھا جس میں 170 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 13 امریکی فوجی بھی شامل تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مزید کئی حملوں کی کڑیاں بھی اس گروپ سے جا ملتی ہیں جن میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 140 سے زیادہ اور ایران میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں 90 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
افغانستان کی شمالی سرحد پر وسطی ایشیائی ممالک کی قومیتوں کے افراد کی بھرتیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ چھاپوں کے دوران گرفتار ہونے والوں میں ایک تاجک شہری بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کے تین سال؛ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟داعش خراساں گروپ نے مئی میں وسطی بامیان میں ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں تین ہسپانوی شہری اور تین افغان باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ اس مہینے کے دوران دو حملوں میں 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)