|
اگست 2021 سے قبل پاکستان میں وسیع پیمانے پر یہ سوچ غالب تھی کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے اندر سیکیورٹی بہتر ہوگی اور طالبان حکومت کا قیام خطے میں امن و استحکام لائے گا۔
لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں بلکہ اس کے برعکس صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پاکستان کے صوبۂ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان سے پاکستان کی امیدیں ٹوٹنے لگیں اور سوچ تبدیل ہونے لگی۔
مبصرین کے نزدیک یہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے افغانستان سے متعلق غلط اندازوں اور حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر داؤد خٹک کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز تھی۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ مغربی سرحد پر پاکستان کو تقریباً دو لاکھ تک سیکیورٹی فورسز تعینات کرنا پڑی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر پاکستان کو سب سے زیادہ پریشانی مبینہ طور پر بھارتی اثر و رسوخ سے تھی اور اس کا خیال تھا کہ طالبان حکومت آنے سے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
لیکن ان کے بقول طالبان قیادت کی سوچ جو بھی ہو وہ اپنے 'فٹ سولجرز' یا جنگجوؤں کی سوچ کے بر خلاف نہیں جا سکتے ہیں۔ طالبان کے انہیں فُٹ سولجرز کی سوچ پاکستان مخالف جذبات پر مبنی ہے۔
داؤد خٹک کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی دہائیوں پر مبنی افغان پالیسیاں مسلسل ناکام رہی ہیں اور یہ تمام امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ اور موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہ آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی سرحد کے بارے میں پاکستان کے مقاصد کبھی بھی پورے نہیں ہو سکتے کیوں کہ پاکستان کی ایما پر افغانستان میں طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ پاکستان میں سنگین سیکیورٹی حالات کو دیکھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں تین سال قبل آنے والی طالبان حکومت کے بعد پاکستان کا افغانستان سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے اور اپنی سرزمین سے پاکستان پر حملے روکے۔
افغان طالبان کی حکومت اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے سے انکار کرتی ہے۔
'چھ ماہ میں 500 سے زیادہ کارروائیوں میں 474 ہلاکتیں ہوئیں'
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے ڈائریکٹر گل داد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول رواں سال کے چھ ماہ میں تقریباً پانچ سو کارروائیوں میں 474 ہلاکتیں ہوئیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان ٹی ٹی پی کی جانب سے شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اس صورتِ حال میں فوج کو آپریشن کرنا پڑے گا یا ٹی ٹی پی کے ساتھ صلح کرنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں خیبرپختونخوا میں عوام نے آپریشن 'عزمِ استحکام' کے نام سے ممکنہ طور پر شروع کیے جانے والے آپریشن کی بھرپور مخالفت کی جس کے بعد حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا پڑی۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کا خاتمہ بہت مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ ان کی پناہ گاہیں مضبوط ہیں۔ اسے وافر افرادی قوت اور فنڈز دستیاب ہیں۔ اس لیے پاکستان کا روایتی حکمتِ عملی کے ذریعے ٹی ٹی پی کو شکست دینا ناممکن نظر آتا ہے۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک اس بارے میں کہتے ہیں کہ خطے میں جنگ لانے کے لیے طالبان کی پشت پناہی کی گئی اور وہ حیران ہیں کہ پاکستان کے پالیسی ساز ایک الگ نتیجہ اخذ کیے ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطے میں مغرب کی پشت پناہی کا کھیل 50 کی دہائی سے سیٹو اور سینٹو معاہدوں سے شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ اب بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کو ایک دوسرے سے مختلف سمجھتی ہے حالاں کہ دونوں نے طالبان سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کر رکھی ہے۔ ان کے نظریات ایک ہیں، علاقہ ایک ہے، اقدار مشترک ہیں، اس لیے یہ دونوں ایک ہی ہیں۔
افراسیاب خٹک کے مطابق اس صورتِ حال کا حل یہ ہے کہ پاکستان مغربی پالیسی ترک کر کے اپنی پالیسیاں خود بنائے۔ تب ہی اس فساد سے نکلا جا سکتا ہے۔
'پاکستان نے اپنی سابقہ پالیسیوں سے سبق نہیں سیکھا'
سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان نے کبھی بھی اپنی سابقہ پالیسیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ پاکستان کو 90 کی دہائی میں مجاہدین کی سپورٹ کے حوالے سے پہلی شکست ہوئی جب استاد ربانی اور احمد شاہ مسعود پاکستان کے خلاف ہوئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان، طالبان حکومت کی ٹی ٹی پی سے متعلق پالیسی سے سخت مایوس ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ملک کے 77 ویں یومِ آزادی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی سے متعلق تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم افغانستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ان کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ فتنہ الخوارج کو اپنے دیرینہ، خیر خواہ اور برادر ہمسایہ ملک پر ترجیح نہ دیں۔"
سمیع یوسفزئی کے بقول افغانستان کی جو ڈائنامکس ہیں ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے کیوں کہ جو بھی کابل پر حکومت کرے گا وہ اپنی قوم کی امنگوں کے مطابق ہی چلے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کی افغانستان کے اندرونی مسائل میں دخل اندازی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب افغانستان کا بچہ بچہ پاکستان سے ناراض ہے اور وہ پاکستان کو اپنے مسائل کا ذمے دار سمجھتا ہے۔
سمیع یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کی سابق حکومت میں سیاست دانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ٹیکنوکریٹس بھی تھے جب کہ افغان حکومت کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل تھی۔
لیکن ان کے بقول موجودہ حکومت کو نہ تو کسی نے عالمی سطح پر تسلیم کیا ہے نہ ہی کوئی پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی پاکستان کے اندر کارروائیوں نے اسلام آباد کو اسی طرح پریشان کیا ہوا ہے جیسے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو طالبان کی شدت پسندی نے پریشان کیا ہوا تھا۔
تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے لیے موجودہ حالات میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا بھی کسی خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد چھ سات ہزار سے کم نہیں ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار صرف افغان طالبان کو نہیں قرار دیا جا سکتا کیوں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو صرف سرحدی علاقوں کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ان کی کارروائیاں سینکڑوں کلو میٹر اندر بڑے شہروں تک پھیل گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے آگے بند باندھنے کے لیے پاکستان کو اندرونی استحکام پر خود توجہ مرکوز رکھنا ہو گی۔
فورم