افغان طالبان نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات کے نتیجے میں قطر میں واقع ان کے سیاسی دفتر کو باضابطہ حیثیت دینے کا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں قطر میں واقع طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان کے دفتر کو قانونی حیثیت دینے سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جاری مذاکراتی عمل میں تیزی لائی جا سکے گی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر 2013ء سے کام کر رہا ہے لیکن اس دفتر کی کوئی قانونی یا سفارتی حیثیت نہیں ہے۔
افغان حکومت کے اعتراضات کی بنیاد پر قطر کی حکومت نے طالبان پر پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ اس دفتر کو عوامی یا سرکاری رابطوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔
طالبان کی جانب سے قطر میں قائم اپنے دفتر کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کا مطالبہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے نئے دور سے قبل سامنے آیا ہے۔
فریقین کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 25 فروری سے دوحہ میں ہو گا۔ خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان گزشتہ چند ماہ میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر کی میزبانی قطر نے کی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کو انٹرویو دیتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ دوحہ میں امریکی نمائندوں اور دیگر غیر ملکی وفود کے ساتھ طالبان کے تمام اجلاس اور ملاقاتیں مختلف ہوٹلوں میں ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے صحافیوں کو ان مذاکرات کی تفصیلات یا پیش رفت سے بروقت آگاہ کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
ترجمان نے کہا کہ انہوں نے دوحہ کے اپنے دفتر کو قانونی حیثیت دینے کا معاملہ امریکی وفد کے سامنے بھی اٹھایا ہے اور وہ یہ معاملہ مذاکرات کے آئندہ دور میں بھی امریکی وفد کے سامنے رکھیں گے۔
ان کے بقول طالبان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں اور ان کے دفتر کی قانونی حیثیت تسلیم کیے جانے سے مذاکراتی عمل میں مدد ملے گی۔
امریکہ نے تاحال طالبان کے اس مطالبے پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
سہیل شاہین نے مزید بتایا کہ حزبِ اختلاف کے سرکردہ افغان رہنماؤں اور طالبان کے درمیان دوسرا اجلاس آئندہ ماہ دوحہ میں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس سے قبل دوحہ میں واقع دفتر کی قانونی حیثیت تسلیم کر لی جاتی ہے تو یہ اجلاس وہیں ہو گا۔
ترجمان نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جاری مذاکراتی عمل اور تنازع کے حل کی کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
طالبان رہنماؤں اور افغانستان کی حزبِ اختلاف کے سرکردہ رہنماؤں کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کی میزبانی روس نے کی تھی جس میں افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا۔
طالبان افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی تجاویز اور مطالبات مسترد کرتے آئے ہیں جس پر افغان حکومت کو سخت تحفظات ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کی حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ افغان تنازع کا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب طالبان افغان عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ براہِ راست بات چیت کریں۔
امریکی حکام بھی طالبان پر افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں لیکن طالبان نے تاحال اس پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
صدر اشرف غنی نے اتوار کو اپنے ایک خطاب میں طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے افغانستان میں اپنا دفتر کھولنے کی دعوت بھی دی تھی۔
لیکن وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں طالبان کے ترجمان نے یہ دعوت اور افغان حزبِ اختلاف کے ساتھ ماسکو میں ہونے والی اپنی بات چیت پر افغان حکومت کے اعتراضات مسترد کردیے۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ افغانستان طالبان کا اپنا ملک ہے اور انہیں وہاں اپنا دفتر قائم کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے اس مرحلے پر اشرف غنی کی حکومت اس طرح کی پیش کش کر کے قیامِ امن کے لیے جاری کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔