طالبان کا کہنا ہے کہ 2015ء کے دوران لڑائی میں اُس نے افغانستان کے تقریباً 400 میں سے 34 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے، جن میں سے زیادہ تر اب بھی اُن کے قبضے میں ہیں۔
ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ 'گذشتہ 14 برسوں میں سے سال 2015 کو کامیاب ترین اور ولولہ انگیز جہادی سال قرار دیا جاسکتا ہے، جس دوران کئی ایک اہم اور کبھی کبھار غیر متوقع کامیابیاں ملیں'۔ یہ بات ہفتے کو اخباری نمائندوں کو موصول ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی ہے، جس کا عنوان 'سال 2015میں جہادی پیش رفت، ایک جائزہ' ہے۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیر تسلط اضلاع ملک کے 34 صوبوں میں سے 17 میں واقع ہیں، جن میں فراہ، بادغیس، پنجشیر، بدخشاں، بغلان، ہلمند، قندوز، نورستان، سر پُل، پکتیکا، تخار، لوگر، جوزجان، فاریاب، قندھار اور غزنی شامل ہیں۔
طالبان نے ستمبر میں کلیدی شمالی افغان شہر، قندوز پر عارضی قبضے کو 'سال بھر کا بہت ہی اہم واقع' قرار دیا ہے۔
بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پچھلے برس میدانِ جنگ میں ہونے والی پیش قدمی کے نتیجے میں طالبان باغی متعدد صوبائی مراکز کے قریب تر پہنچ چکے ہیں، اور یہ کہ 'بغلان، ہلمند اور فاریاب کے صوبے اسلامی خلافت کے مجاہدین کے محض چند ہی قدم کے فاصلے پر ہیں'۔
افغان سکیورٹی افواج، جنھیں نیٹو کی حمایت حاصل ہے، ہلمند کا قبضہ چھڑانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جس صوبے میں افغانستان میں سب سے زیادہ پوست کی فصل کاشت ہوتی ہے۔ ہلمند کے 14 میں سے 10 اضلاع یا تو طالبان کے قبضے میں ہیں یا پھر کنٹرول کی لڑائی جاری ہے۔
افغان حکومت نے باغیوں کے اِن دعووں پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تاہم، کابل میں ہفتے کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، وزارتِ دفاع کے معاون ترجمان، دولت وزیری نے نا تو اِن دعووں کو مسترد کیا ناہی اِن کی تصدیق کی، جو دعوے مقامی ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں پیش کیے جارہے ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ہلمند کے زیادہ تر علاقے کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔
وزیری کے بقول، 'ہم سب کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ افغانستان میں لڑائی جاری ہے'۔ اُنھوں نے ناقدین سے کہا کہ وہ دی جانے والی قربانیوں کی حرمت کو پیش نظر رکھیں۔
اُن کے الفاظ میں، 'ہماری سکیورٹی فورسز، جس میں بَری فوج، پولیس اور انٹیلی جنس اہل کار شامل ہیں ملک کا دفاع کرتے ہوئے، آئے دِن، نمایاں کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں'۔
وزیری نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ افغان فوج کے کمانڈوز نے جمعے کی رات گئے ہلمند میں گریشک اور نہر سراج کے دو اضلاع میں قائم طالبان کے دو قیدخانوں سے تقریباً 60 افراد بازیاب کرئے ہیں۔ صوبہ ہیلمند پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ یرغمال بنائے گئے لوگوں میں سکیورٹی اہل کار بھی شامل تھے۔
افغانستان میں عشرہ طویل لڑاکا مشن کے دوران، نیٹو افواج یہ کوششیں کرتی رہی ہے کہ طالبان کو اُن کے ہلمند کی روایتی محفوظ پناہ گاہ سے پرے رکھا جائے۔
اقوام متحدہ کے ایک تخمینے سے بھی اس بات کا پتا چلتا ہے کہ سال 2015کے دوران طالبان نے افغانستان کے اُن علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلا دیا جہاں سنہ 2001کے بعد باغیانہ سرگرمیاں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھیں۔
مغربی اور افغان حکام کے مطابق، طالبان، جو ملک بھر کے اضلاع کے اندازا ً 30 فی صد علاقے میں موجود دکھائی دیتے ہیں، اب سنہ 2001 کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقبے پر قابض ہیں، جب 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ پر حملوں کے بعد اس سخت گیر اسلامی گروہ کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔ یہ بات اِس ہفتے کے اوائل میں 'دِی واشنگٹن پوسٹ' نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
نومبر تک، افغان سکیورٹی فورسز کے تقریبا ً 7000 ارکان ہلاک، جب کہ 12000 زخمی ہوچکے ہیں۔'واشنگٹن پوسٹ' کی خبر میں کہا گیا ہے کہ اِن اعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2014میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے شمار میں 26 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ اِس ضمن میں، اخبار نے یہ رپورٹ نیٹو کے تازہ ترین اعداد و شمار تک رسائی رکھنے والے مغربی اہل کاروں کے حوالے سے دی ہے۔
نیٹو کے 'رزولوٹ سپورٹ مشن' کے ترجمان نے کابل میں ایک فرانسیسی ریستوراں پر جمعے کے روز طالبان کی جانب سے خود کش کار بم حملے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے، کہا ہے کہ سال 2015کے دوران باغیوں کے حملوں میں اندازاً 6500 سولین ہلاک و زخمی ہوئے۔