افغان طالبان کے سپریم لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی حکومت نے افغانستان میں خواتین کی زندگیوں کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں۔
افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے یہ بیان اتوار کو عید الاضحی کی تعطیلات سے قبل عوام کے لیےجاری کیا گیا۔
اخوندزادہ شاذ و نادر ہی افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں طالبان کے گڑھ کو چھوڑتے ہیں یاعوام میں نظر آتے ہیں۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خودایسے دوسرے مذہبی اسکالرز اور اتحادیوں میں گھرے رہتے ہیں جو تعلیم اور خواتین کےکام کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
اپنے پیغام میں اخوندزادہ نے کہا کہ اُن کے دورِ حکومت میں خواتین کو جبری شادیوں سمیت بہت طرح کے روایتی جبر سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں 'اور ان کے شرعی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔'
پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ "اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو ایک آرام دہ اور خوش حال زندگی فراہم کرنے کے لیے معاشرے کے نصف حصے کی حیثیت سے ان کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔"
SEE ALSO: افغان خواتین کو مستقبل میں صرف اندھیرا نظر آرہا ہے؛ ٹائم وومن آف دا ائیر زہرہ جویاحال ہی میں اخوندزادہ نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے اور افغان خواتین کے گھر سے باہرکام پر خاص طور پر غیر سرکاری تنظیموں اور اقوامِ متحدہ میں کام پر پابندی لگانے سے متعلق ملک کی داخلی پالیسوں کے لیے احکامات میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔
یہ پیغام پانچ زبانوں ،عربی، دری، انگریزی، پشتو اور اردو میں تقسیم کیا گیاہے۔ اخوندزادہ نے کہا کہ خواتین کے حجاب پہننے اور 'گمراہی' سے متعلق گزشتہ 20 سال کے قبضے کے منفی پہلو جلدہی ختم ہو جائیں گے۔
نہوں نے مزید کہا کہ "ایک آزاد اور باوقار انسان کے طور پر خواتین کی حیثیت بحال کر دی گئی ہے اور تمام اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شادی، وراثت اور دیگر حقوق کے حصول میں خواتین کی مدد کریں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے 90 کی دہائی میں اقتدار میں اپنے پچھلے دور کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کے ابتدائی وعدوں کے باوجود اگست 2021 میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد سے سخت اقدامات نافذ کیے ہیں۔
انہوں نے خواتین کو عوامی مقامات جیسے پارکس اور جم جانے سے روک دیا ہے اور میڈیا کی آزادیوں پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ان اقدامات نے شدید بین الاقوامی احتجاج کو جنم دیا ہے جس نے ایسے وقت میں اس ملک کی تنہائی میں اضافہ کیا ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اوریہ صورت ِحال ایک انسانی بحران کو مزید بدتر بنا رہی ہے۔
اخوندزادہ نے دوسرے ممالک سے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت دنیا کے ساتھ خاص طور پر اسلامی ممالک کے ساتھ اچھے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں اپنی ذمے داری اس نےپوری کر دی ہے۔