|
افغانستان میں طالبان حکومت نے اتوار کو تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں "دو امریکیوں سمیت متعدد غیر ملکی شہریوں کو" حراست میں لیا ہے۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری ریڈیو کو بتایا کہ انہوں نے امریکہ کو اس کے شہریوں کی حراست کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور نہ ہی دوسرے زیر حراست غیر ملکیوں کی قومیتیں بتائیں۔
رشتہ داروں اور امریکی حکام نے حراست میں لیے گئے ایک امریکی شہری کی شناخت ریان کوربٹ کے نام سے کی ہے، جب کہ دوسرے شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
SEE ALSO: طالبان سے قیدیوں کے تبادلے میں آخری امریکی یرغمالی آزادمجاہد نے نجی طور پر چلنے والے مقامی طلوع نیوز چینل سے الگ سے بات کرتے ہوئے کہا، اس وقت دو امریکی دیگر غیر ملکی شہریوں کے ساتھ قید میں ہیں۔ ان کے سفر کی وجوہات واضح نہیں ہیں لیکن وجوہات کچھ بھی ہوں، جو بھی افغانستان کا سفرکرتا ہے اسے ملک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ افغان ویزا حاصل کرنے والا ہر شخص ہمارے قوانین کی پیروی پر رضامند ہوتا ہے۔"
یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے دو امریکی شہریوں کی حراست کا کھلے عام اعتراف کیا ہے۔ تاہم انہوں نے صرف کوربٹ کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔
ریان کوربٹ کو اگست 2022 میں اس کے دو برس بعد حراست میں لیا گیا تھا، جب افغانستان میں شورش پسند طالبان کے ساتھ تقریباً 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی قیادت والی اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد اسلام پسند گروپ ملک پر دوبارہ بر سر اقتدر آیا تھا۔
SEE ALSO: طالبان نے دو امریکی قیدیوں کو رہا کردیاکوربٹ کے اہل خانہ نے حال ہی میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے ان کی محفوظ اور جلد رہائی کے لیے مزید اقدامات کرنے کی اپیل کی تھی۔
سی این این کے مطابق، کوربٹ نے اپنی گرفتاری کے بعد سے گزشتہ ہفتے پانچویں بار اپنی اہلیہ اینا اور اپنے تین بچوں سے فون پر بات کی ہے۔
اینا کوربٹ نے جمعرات کو امریکی میڈیا آؤٹ لیٹ کو بتایا ،"یہ ایک پریشان کن فون کال تھی،” انہوں نے کہا ، "ریان کو امید کھوتے ہوئے سننا مشکل تھا۔ انہیں گرفتار ہوئے اب تقریباً 600 دن ہو چکے ہیں اور قید کے بارے میں ان کے خیالات میں تبدیلی آ چکی ہے ۔ “
اینا نے کہا کہ کوربٹ کی جسمانی صحت خراب ہو رہی ہے، "اور اب جب کہ ان کی ذہنی صحت بھی گر رہی ہے، یہ بچوں اور میرے لیے انتہائی خوفناک بات ہے۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ محکمہ بیرون ملک "غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے" تمام امریکی شہریوں کی رہائی کے لیے کام کر رہا ہے۔
میتھیو ملر نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا،" وہ اس درد کو سمجھ سکتے ہیں جس درد سے خاندان گزر رہے ہیں ، جس رنج میں وہ مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کے (خاندان) لیے یہ جاننا کتنا مشکل ہو گا کہ ان کا عزیز ایسی المناک مصیبت سے گز ر رہا ہے ۔"
انہوں نے کہا کہ امریکی حکام نے طالبان کے نمائندوں سے میٹنگز میں ان پر "مسلسل دباؤ" ڈالا ہے کہ وہ تمام امریکی قیدیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں۔
ملر نے کہا کہ "ہم نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ یہ حراستیں مثبت ربط ضبط میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ ہم ریان کوربٹ اور غلط طریقے سے حراست میں لیے جانے والے دوسرے امریکیوں کو افغانستان سے وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
کوربٹ اور ان کا خاندان اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے دوران انخلا سے قبل برسوں افغانستان میں مقیم رہا تھا۔ کاربٹ نے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے صحت اور تعلیم پر مرکوز انسانی ہمدردی کے منصوبے چلائے اور ان کی نگرانی کی تھی۔
ان کے خاندان کے مطابق،کوربٹ 2022 میں دو بار افغانستان واپس گئے تھے اور ان کے دوسرے سفر کے دوران طالبان نے انہیں حراست میں لیا لیکن ان پر کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا ہے۔
امریکی ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین، مائیکل میکول نے 27 مارچ کو ایک بیان میں کہا ،”بائیڈن انتظامیہ نے ریان کی بگڑتی ہوئی صحت اور قید کے قابل رحم حالات کی اطلاعات کے باوجود، ان رہائی کے حصول کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔”