افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے ملک کے الیکشن کمیشن کو تحلیل جب کہ دو وزارتوں کو بھی ختم کر دیا ہے۔
طالبان نے جس الیکشن کمیشن کو تحلیل کیا ہے اس کا پینل مغرب کی حمایت یافتہ گزشتہ انتظامیہ کے دور میں ملک میں انتخابات کروانے کا ذمے دار تھا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے کہا ہے کہ ایسے کمیشنوں کے موجود رہنے اور کام کرتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ انڈیپینڈیٹ الیکشن کمیشن (آئی ای سی) اور انڈیپینڈیٹ الیکٹورل کمپلینٹس کمیشن جیسے اداروں کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
البتہ ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ اگر ان اداروں کی مستقبل میں ضرورت ہوئی تو اسلامی امارات ان کو بحال کر دے گی۔
طالبان اگست میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد ایسے وقت میں اقتدار میں آئے تھے جب امریکہ اور اس کی اتحادی أفواج کا افغانستان سے انخلا جاری تھا۔
کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق 'آئی ای سی' 2006 میں قائم ہوا تھا اور اس ادارے کو صدارتی انتخاب سمیت ملک کے اندر تمام طرح کے انتخابات کرانے کا اختیار حاصل تھا۔
جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ؟
اورنگزیب جنہوں نے گزشتہ حکومت کے خاتمے تک اس پینل کی قیادت کی۔ خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ طالبان نے یہ فیصلہ جلدی میں کیا ہے۔ ان کے بقول الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کے وسیع پیمانے پر برے اثرات ہوں گے۔
SEE ALSO: امدادی اشیا کی فراہمی کے لیے امریکہ کی طالبان کے ساتھ محدود لین دین کی اجازتاُن کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہ ڈھانچہ ملک میں موجود نہیں رہتا تو مجھے 100 فی صد یقین ہے کہ أفغانستان کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ وہاں کسی طرح کے انتخابات نہیں ہوں گے۔‘‘
سینئر سیاست دان حلیم فدائی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن تحلیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔
دو دہائیوں کے دوران افغانستان کے چار صوبوں کے گورنر رہنے والے فدائی کا مزید کہنا تھا کہ ’’وہ (طالبان) تمام جمہوری اداروں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے گولی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا ہے نہ کہ ووٹ کے ذریعے۔‘‘
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے الیکٹورل کمیشن کے کئی ارکان کو عسکریت پسند گروپ نے مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
تحلیل ہونے والی وزارتیں
طالبان کے ترجمان کریمی نے بتایا کہ دو حکومتی شعبوں، وزارتِ امن اور وزارتِ پارلیمانی اُمور کو تحلیل کیا گیا ہے۔
قدامت پسند طالبان سابق دور کی وزارت أمور برائے خواتین کو وزارت برائے فضیلیت و نائب سے تبدیل کر چکے ہیں۔
مذکورہ وزارت متعارف کرانے پر طالبان کو نوے کی دہائی میں اس کے ذریعے اپنے مذہبی نظریات زبردستی نافذ کرنے کی شکایات پر عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
خیال رہے کہ طالبان عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے اربوں ڈالر مالیت کے اثاثے بحال کر دے۔ اس کے بدلے گروپ اس مرتبہ جدت پسند حکمرانی اختیار کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔