پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے جاری کی گئی ایک تازہ ویڈیو میں جنگجوؤں کو پاکستانی پولیس کے 16 اہلکاروں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
انٹرنیٹ پر جاری کی گئی اس ویڈیو کے ہمراہ ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے ان پولیس اہلکاروں کو یکم جون کو افغانستان سے سرحد پار کر کے پاکستانی علاقے اپردیر میں کیے گئے ایک چوکی پر حملے کے دوران اغواء کیا تھا۔
ویڈیو میں ایک پہاڑی علاقے میں 16 پولیس اہلکاروں کو ایک قطار میں کھڑے دکھایا گیا ہے جن کے ہاتھ ان کی پشت پر بندھے ہوئے ہیں۔ قطار کے سامنے موجود مسلح جنگجو شناخت چھپانے کے لیے چہروں پر نقاب پہن رکھے ہیں۔
ویڈیو میں ایک جنگجو بلند آواز میں پشتو زبان میں مغوی اہلکاروں کو پاکستان کے علاقے سوات میں چھ بچوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے قتل کرنے کا ملزم اور "اللہ کے دین کا دشمن" قرار دے رہا ہے جس کے بعد مسلح جنگجو قطار میں کھڑے اہلکاروں پر فائر کھول دیتے ہیں۔
ویڈیو میں مغوی پولیس اہلکاروں کو گولیاں کا نشانہ بنتے اور زمین پر گرتے دکھایا گیا ہے جب کہ ان میں سے کئی افراد کی آہ و بکا بھی سنی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں ایک جنگجو آگے بڑھ کر زمین پر گرے ہوئے زخمی افراد تک پہنچتا ہے اور انہیں سروں میں گولیاں مار کر قتل کردیتا ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو میں ویڈیو کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آور طالبان کا تعلق وادی سوات سے تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات پر طالبان نے اپنا اثر ورسوخ قائم کرلیا تھا جس کے بعد پاکستانی فوج نے 2009ء میں ایک بڑی فوجی کاروائی کرکے حکومت کی عملی داری بحال کر دی تھی۔ تاہم فوجی کاروائی سے بچ کر علاقے کے کئی طالبان جنگجو سرحد پار کر کے افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
اطہر عباس کے بقول یکم جون کو پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبہ کنڑ سے سینکڑوں طالبان جنگجوں نے پاکستانی علاقے دیر کی ایک سرحدی چوکی پر حملہ کر کے 30 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد یہ جنگجو دوبارہ افغانستان کی جانب پسپا ہوگئے تھے۔