|
اسلام آباد -- پاکستان کی فوج کی جانب سے افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیکا میں کارروائی اور طالبان کی جانب سے اس کا جواب دینے کے اعلان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
طالبان حکومت نے تصدیق کی تھی کہ منگل کی شام پاکستانی فوج کی فضائی کارروائی میں 46 عام شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی فوج نے باضابطہ طور پر اس کارروائی سے متعلق کچھ نہیں بتایا، تاہم سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کارروائی میں اہم کمانڈروں سمیت 42 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ہونے والی مبینہ بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "وحشیانہ اقدام" اور سفارتی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
رواں برس مارچ میں بھی پاکستانی طیاروں نے افغان صوبوں پکتیکا اور خوست میں کارروائیاں کی تھیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ کارروائی میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
منگل کی کارروائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے کابل میں طالبان حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
'یہ افغان طالبان کے لیے پیغام ہے'
مبصرین اس معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں اضافے کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستانی عہدے دار کابل میں ہیں اور دوسری طرف یہ کارروائی کی گئی ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے ان حملوں کے ذریعے طالبان حکومت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے مطالبات کو پورا نہیں کرتے تو پاکستان عسکری قوت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ان کے بقول طاقت کا استعمال پاکستان کو درپیش عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اس حملے پر بات ہو رہی ہے جب کہ افغانستان میں طالبان مخالف حلقے بھی اس حملے پر برہم دکھائی دیتے ہیں۔
SEE ALSO: پکتیکا میں پاکستانی فوج کی کارروائی کا جواب دیں گے: طالبان حکومتیاد رہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات افغان بارڈر سے متصل جنوبی وزیرستان کے علاقہ مکین میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 16 سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔
'ملکی سالمیت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے'
سابق سیکریٹری فاٹا اور سینئر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ افغان سرزمین پر کیے گئے حملے کو درست قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی مرتبہ افغان طالبان سے کہہ چکا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو سرحد پار کارروائیوں روکیں۔ لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔
ان کے بقول ملک کی سالمیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں محمود شاہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملوں سے پاکستان کے اندر شورش بڑھ سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کھلم کھلا تماشا نہیں دیکھ سکتا ہے۔
اُن کے بقول اب جب پاکستان کے پاس وسائل بھی ہیں اور طاقت بھی ہے تو ملک میں جاری دہشت گردی کا جواب لازمی طور پر بنتا ہے اور پاکستان کو جارحانہ حکمتِ عملی استعمال کرنی ہو گی۔
'پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہو گا'
کابل میں مقیم سینئر تجزیہ کا عبدالوحید وحید کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان حملوں کے بعد تو ان میں مزید اضافہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کافی عرصے سے بداعتمادی ہے۔ بجائے اس کے مصالحت کے ساتھ مسائل حل کیے جائیں، دونوں جانب سے جارحانہ رویہ ہی اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
عبدالوحید وحید کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام میں ان حملوں کے باعث شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں افغان حکومت کی سالمیت اور خود مختاری چیلنج ہوئی ہوئی ہے۔ وہیں آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے۔