پاکستان میں حکام نے افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کے نام پر کراچی میں موجود جائیدادوں کو عدالتی حکم کے تحت ضبط کر لیا ہے۔ شہر میں موجود اُن کی ملکیت چھ املاک کو سیل کر کے نیلام کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چند روز ملا منصور کے فرنٹ مین کی جانب سے خریدی گئی جائیداد کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عدالت کو ملا اختر منصور کی جائیدادوں سے متعلق ریکارڈ پیش کیا تھا۔
رواں سال سات فروری میں کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق ان جائیدادوں میں کراچی میں واقع گلشن معمار، کے ڈی اے اسکیم 45 میں واقع ایک گھر، گلشن معمار ہی میں واقع صنوبر ہائیٹس میں موجود ایک فلیٹ بھی شامل ہے۔
اسی علاقے میں واقع ایک 441 مربع گز پر مشتمل پلاٹ، گلزار ہجری میں واقع ایک اور پلاٹ اور ایک فلیٹ جب کہ دہلی مرکنٹائل کوآپریٹو سوسائٹی کے مہنگے علاقے میں بھی ایک فلیٹ شامل ہے۔
کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ملا منصور اور ان کے فرنٹ مین گل محمد، اختر محمد، عمار یاسر کے خلاف یہ جائیدادیں بنانے پر دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے اس کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ملا منصور اپنے فرنٹ مین کے ذریعے جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک تھے۔
ملا اختر منصور نے اس مقصد کے لیے دو جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنوا رکھے تھے۔ سابق طالبان رہنما نے محمد ولی اور گل محمد کے ناموں پر نادرا حکام کو غلط معلومات فراہم کر کے دونوں شناختی کارڈ بنوائے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کراچی ہی میں دو مختلف بینک اکاؤنٹس بھی کھلوا رکھے تھے۔ ملا اختر منصور کے ان اکاؤنٹس کے ذریعے پراپرٹی کے کاروبار سے حاصل کی جانے والی رقم استعمال کی جاتی رہی۔ ان اکاونٹس میں 30 لاکھ روپے کے قریب رقم موجود تھی۔
ملا اختر منصور کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ایک انشورنس پالیسی میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی تھی جس کے لیے تین لاکھ سے زائد رقم ادا کی جا چکی تھی۔
ملا اختر منصور کون تھے؟
افغانستان کے علاقے قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا اختر منصور طالبان کے اہم اور چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور طالبان کی سپریم کمان میں ڈپٹی چیف سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔
طالبان دورِ حکومت میں وہ افغانستان کی سول ایوی ایشن اور سیاحت کے وزیر تھے۔ انہیں ملا عمر کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا اور ملا عمر کے بعد وہی طالبان شوریٰ کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔
2015 میں طالبان سربراہ ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان تحریک کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
ملا اختر منصور کو اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ مئی 2016 میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ ملا اختر منصور کو اقوامِ متحدہ نے قرارداد کے تحت دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔ ان پر رکن ممالک میں کوئی بھی کاروبار یا دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سمیت بینک اکاؤنٹس کھلوانے پر بھی پابندی تھی۔