افغانستان سے گزشتہ برس غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے طالبان نے اتوار کو اپنے بانی ملا عمر کی نویں برسی منائی۔ اس حوالے سے دارالحکومت کابل میں منعقدہ خصوصی تقریب میں شرکا نےان کی زندگی، شخصیت اور سوویت یونین کے خلاف جدوجہد پر روشنی ڈالی۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق کابل میں منعقد ہونے والی تقریب میں طالبان رہنماؤں نے ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرایا کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
قائم مقام وزیرِ دفاع اور ملا عمر کے صاحب زادے مولوی محمد یعقوب مجاہد کا کہنا تھا کہ ملا محمد عمر نے افغانستان میں لوگوں کو متحد کرنے کے علاوہ تمام مسالک کو اکٹھا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملا عمر نے سوویت یونین کی مداخلت کے خلاف نہتے ہی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ وہ کبھی افغانستان چھوڑ کر نہیں گئے۔
یاد رہے کہ ملا عمر سوویت یونین کے خلاف مسلح مجاہدین کا حصہ تھے۔
افغانستان میں طالبان کی عبوری کابینہ میں وزارتِ دفاع کا قلم دان رکھنے والے مولوی محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے سرحدی صوبوں خوست اور کنڑ میں کیے جانے والے حملوں سے متعلق مولوی محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ قومی معاملات کی وجہ سے برداشت کیا گیا۔
تقریب سے خطاب میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ملا عمر کی موت تپ دق (ٹی بی) کی وجہ سے ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ ملا عمر کے حوالے سے کئی بار یہ رپورٹس آئی تھیں کہ ان کی موت کسی حملے میں ہو گئی ہے البتہ بعد ازاں معلوم ہوتا تھا کہ وہ رپورٹس درست نہیں ہیں۔
طالبان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام نے اپنے خطاب میں اپیل کی کہ دیگر ممالک افغانستان میں عدم استحکام کی کوشش نہ کریں۔ اب افغانستان دوسرے ممالک کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا سے اچھے تعلقات چاہتی ہے۔
افغان نشریاتی ادارے ‘طلوع نیوز’ کے مطابق تقریب سے خطاب میں نائب وزیراعظم (اول) ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ ملا عمر ایک بہاد رہنما تھے، جنہوں نے مشکل حالات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
ملا عبدالغنی کا کہنا تھا کہ امارت اسلامی افغانستان ملا عمر کے راستے پر چلنے کے لیے پر عزم ہے۔
تقریب میں قائم مقام وزیر داخلہ انس حقانی بھی موجود تھے۔ ملا عمر کے قریبی ساتھی اور طالبان کی گزشتہ حکومت میں وزیرِ خارجہ رہنے والے وکیل احمد متوکل بھی دیگر اعلیٰ طالبان رہنماؤں کے ساتھ کابل میں منعقدہ تقریب میں شریک تھے۔
خیال رہے کہ ملا عمر کی موت 2013 میں افغان صوبے زابل کے ضلع سوری میں ہوئی تھی۔جس کا اعلان طالبان نے 2015 میْں کیا۔
روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد قیامِ امن اور جنگ سے تباہ حال لوگوں کو خود ساختہ جرنیلوں اور جنگی کمانڈروں کے مظالم سے نجات کے نعرے پر ملا عمر نے 1994 میں دو درجن ساتھیوں کے ساتھ جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔
اس وقت افغانستان میں ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور ایک ماہ سے بھی کم وقت میں طالبان کی تعداد چند درجن سے بڑھ کر 15 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ جب کہ 1996 میں وہ افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ حکومت 2001 تک قائم رہی تھی۔
سویت یونین کے خلاف افغانستان میں مزاحمت کرنے والی اس وقت کی کئی جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے بھی طالبان کا ساتھ دیا تھا۔ اسی وجہ سے طالبان نے چند ماہ میں جنوب اور جنوب مشرقی افغانستان کے زیادہ تر حصوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردحملوں کے بعد امریکہ نے طالبان قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کو پناہ نہ دے اور امریکہ کے حوالے کر دے۔ اس پر طالبان کی جانب سے انکار پر امریکہ اور اتحادی افوج نے افغانستان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
ملا عمر کی قیادت میں چلنے والی سخت گیر طالبان حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔اس حکومت کو پہلے ہی ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا تھا جن کا مقصد ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس اقدامات پر آمادہ کرنا تھا۔ نائن ایلیون کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا اور ان پر وسیع پابندیاں لاگو کر دیں۔
اس وقت بہت سے سرکردہ رہنما طالبان سے الگ ہو گئے تھے اور بعد ازاں صدر حامد کرزئی کے قومی مصالحتی اور سیاسی عمل کی حمایت میں آگے آئے تھے۔ ان میں عبد الحکیم مجاہد، مولوی وکیل احمد متوکل اور ملا ارسلا رحمانی سر فہرست تھے۔
اسی طرح ملا عمر کی زندگی ہی میں ملا داد اللہ نے بغاوت کرکے علیحدہ گروہ بنا لیا تھا ۔ ملا داد اللہ 2007 میں مبینہ طور پر امریکہ کے ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں اس وقت کی حکومت نے 29 جولائی 2015 کو ملا عمر کی 2013 میں ہلاکت کا اعلان کیا تھا بعد ازاں طالبان نے بھی ان کی موت کی تصدیق کی۔
ملا عمر کی موت کے بعد طالبان نے ملا منصور اختر کو نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا البتہ وہ صرف 10 ماہ ہی طالبان کی قیادت کر سکے۔21 مئی 2016 کو طالبان کے سربراہ ملا منصور اختر کو ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکہ نے ڈرون حملے میں نشانہ بنایا جس میں ان کی موت ہوئی۔ ان کی موت کے چار روز بعد 25 مئی 2016 کو طالبان نے اعلان کیا کہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ طالبان کے نئے سربراہ ہوں گے۔
ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی قیادت میں ہی طالبان نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اگست 2021 میں حکومت سنبھالی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ملاہبت اللہ نےپہلی بار ایک مدرسے میں طالب علموں سے بذات خود خطاب کیا۔ طالبان نے صرف اس کی آڈیو جاری کی مگر کوئی وڈیو سامنے نہیں آئی۔ وہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد ملا عمر کی یاد میں ہونے والی پہلی کانفرنس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
(رپورٹ میں طالبان کے پہلے دور حکومت سے متعلق معلومات کا اضافہ کیا گیا ہے۔)