|
افغان طالبان نے سرکاری اور نجی یونیورسٹیز میں خواتین کے داخلہ ٹیسٹ دینے پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آنے والے ہفتوں میں ہزاروں طلبہ داخلہ ٹیسٹ دیں گے۔
رواں برس ہونے والے داخلہ ٹیسٹ میں لگ بھگ 70 ہزار طلبہ سرکاری جامعات اور پیشہ ورانہ مہارت کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے امتحان دیں گے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی وزارتِ تعلیم نے گزشتہ ہفتے اس داخلہ ٹیسٹ کے حوالے سے تفصیلات جاری کی تھیں۔ البتہ طالبان کی جانب سے طالبات کے نام فہرست میں موجود نہ ہونے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔
طالبان کو افغانستان کے اندر اور عالمی سطح پر خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بننے پر تنقید کا سامنا ہے۔ البتہ افغانستان کے حکمران خواتین کے حوالے سے صنف کی بنیاد پر امتیازی پالیسی پر بدستور کاربند ہیں۔
امریکہ کی ریاست انڈیانا کی بال اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایجوکیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر ڈیوڈ روف کہتے ہیں کہ خواتین کے اعلیٰ تعلیم سے اخراج پر ملک کی معاشی ترقی محدود ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ملک کی آدھی آبادی ترقی میں مؤثر انداز میں اپنی حصہ ادا نہیں کر رہی ہوتی۔
طالبان نے افغانستان میں دسمبر 2022 میں طالبات کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم لگ بھگ ایک لاکھ طالبات کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا تھا۔
SEE ALSO: عالمی برادری طالبان سے خواتین کے حقوق سلب کرنے پر جواب دہی کرے: ہیومن رائٹس واچافغانستان میں پہلے ہی خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے جب کہ طالبان کے دورِ اقتدار میں گزشتہ دو برس کے دوران ایک بھی خاتون اعلٰی تعلیم مکمل نہیں کر سکی۔
مختلف امدادی ایجنسیوں کے مطابق میڈیکل کی طالبات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ دیگر پابندیوں کے سبب ملک میں ہزاروں نوجوان ماؤں کی دورانِ زچگی اموات ہو چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں لگ بھگ 25 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
ریاست انڈیانا کی بال اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایجوکیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر ڈیوڈ روف کے مطابق طالبات کی تعلیم میں رکاوٹ سے ایک نسل کو نقصان ہو رہا ہے جہاں خواتین کی ایک پوری نسل ناخواندہ رہے گی اور وہ کوئی پیشہ ورانہ کردار ادا نہیں کر سکیں گی۔
طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کو افغانستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی اور ان کے روزگار کے مواقع ختم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ ملا ہبت اللہ نے کبھی بھی اپنے ان فیصلوں کی عوامی سطح پر وضاحت نہیں کی۔
SEE ALSO: افغان خواتین پر حجاب کے نفاذ میں کمی دیکھی گئی ہے:اقوام متحدہطالبان نے مارچ 2022 میں جب طالبات کے سیکنڈری اسکولوں میں تعلیم پر پابندی عائد کی تھی تو اس کو عارضی پابندی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان خواتین کے تعلیم کے حصول کے خلاف نہیں ہیں۔ طالبان کے اس فیصلے کو دو برس گزرنے کے بعد بھی لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع نہ ہونے پر افغانستان کے حکمران اس کا کوئی جواز فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طالبان صنفی امتیاز کو معمول بنا چکے ہیں۔
ان خاتون رہنما نے اپنا نام اس لیے ظاہر نہیں کیا کیوں کہ انہیں طالبان کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔
خواتین پر عائد پابندیوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں اب یہ نیا معمول ہے چاہے باقی دنیا میں اس کو تباہ کن اور نامناسب سمجھا جاتا ہو۔
جنوری 2022 میں امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے افغانستان کی خواتین کے لیے رینا امیری کو خصوصی ایلچی مقرر کیا تھا۔ ان کے تقرر کا مقصد افغان خواتین کے حقوق کے لیے بین الاقوامی حمایت کا حصول تھا۔
SEE ALSO: طالبان باہمی اختلافات سے دور رہیں، پہلے اسی وجہ سے شریعت نافذ نہیں ہوئی: ملا ہبت اللہطالبان پر اثر انداز ہونے کے لیے رینا امیری نے فعال کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کے مسلم رہنماؤں سے رابطے کیے اور اسلام میں خواتین کے حقوق پر زور دیا۔
امریکہ کی خصوصی ایلچی کی کوششوں کے باوجود طالبان کے رہنماؤں نے ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا جس سے واضح ہو کہ وہ خواتین کے خلاف اپنی امتیازی پالیسیاں ترک کر رہے ہیں۔
رینا امیری نےجنوری میں کانگریس کو آگاہ کیا تھا کہ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ ان پالیسیوں میں نرمی ہو گی۔
امریکہ کے اعلیٰ حکام طالبان کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ طالبان کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آ سکتے جب تک وہ خواتین کو تعلیم اور روزگار کی اجازت نہیں دی جاتی۔
طالبان اب تک بین الاقوامی تعلقات کی بحالی سے زیادہ خواتین پر پابندیوں کے اطلاق کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔