کابل میں صدارتی محل کے داخلی ذرائع نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر نے 11 باغی قیدیوں کو پھانسی دینے سے متعلق ایک انتظامی فرمان پر دستخط کردیے ہیں۔ ذرائع نے یہ بات جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتائی۔
گیارہ میں سے پھانسی کے پھندے پر چڑھنے کے لیے تیار چار قیدیوں کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے، جب کہ باقی سرکشوں کا تعلق کوئٹہ شوریٰ سے جا ملتا ہے۔
سرکشوں کے نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کا بیٹا، انس حقانی اُن میں شامل نہیں جنھیں پھانسی دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق، اس ہفتے کےاوائل میں کابل میں ہونے والے خونریز حملے کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ قید طالبان باغیوں میں سے چند کو لٹکایا جائے، جن میں انس حقانی بھی شامل ہیں۔
طالبان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ پھانسیاں دی گئیں تو اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ طالبان نے کہا ہے کہ اُن کے حربوں میں افغان عدلیہ پر حملے اور یرغمال بنائے گئے غیر ملکی قیدیوں کو ہلاک کرنا شامل ہوگا۔
’امریکن یونیورسٹی آف افغانستان‘ کے دو پروفیسر، 60 برس کے کیون کنگ، جو امریکی شہری ہیں اور 48 برس کے ٹموتھی جان ویکز جو آسٹریلیائی ہیں، اُنھیں سات اگست کو امریکی یونیورسٹی کے کیمپس کے باہر یرغمال بنایا گیا تھا، جہاں وہ تدریس سے وابستہ ہیں۔
جنوری میں باغیوں نے اِن دونوں یرغمالیوں کی ایک وڈیو جاری ہوئی تھی، جس میں اُنھوں نے اپنی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ سے اپیل کی تھی۔
جمعے کو امریکن یونیورسٹی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اپنے پروفیسروں کی فوری غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکن یونیورسٹی آف افغانستان اپنے دو احباب اور ساتھیوں، کیون کنگ اور ٹموتھی ویکز کی فوری غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ دونوں نوجوان افغانوں کو تعلیم دینے کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے، جس کا مقصد افغانستان کی تعمیرِ نو کی کوششوں میں ہاتھ بٹانا تھا۔ ہم اب اُن کی بخیریت رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے اہل خانہ، احباب اور ساتھیوں سے آ ملیں‘‘۔