افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے ایک لاکھ دس ہزار فوجیوں پر مشتمل، ایک مضبوط افغان فوج تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
قائم مقام افغان وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں افغان ریڈیو ٹیلی ویژن کوبتایا کہ طالبان قیادت نے نئی فوج کی تشکیل کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔انھوں نے کہا کہ نئی فوج کے لیے 80ہزار لوگوں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جب کہ 10 ہزار فوجی پہلے ہی تربیت مکمل کرچکے ہیں۔
گزشتہ سال اگسست میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے، اس گروپ میں جنگجوؤں کی تعداد کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
طالبان کے بانی اور سابق رہنما ملا محمد عمر ، جن کا کئی برس قبل انتقال ہوچکا ہے ،ان کے بڑے بیٹے ملا محمد یعقوب ، نے کہا کہ پیشہ ور افغان باشندے، جنھوں نے سابق حکومت میں خدمات انجام دیں تھیں او روہ جنھیں سابق حکومت نے تربیت کے لیے بیرون ملک بھیجا تھا ،یہ سبھی اس نئی فوج میں شامل ہوسکتے ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے طالبان پر سابق افغان فوجی اور پولیس اہل کاروں کو اذیت دینے اور نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملا محمدیعقوب کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔
SEE ALSO: چھ ماہ بعد بھی افغان عوام کو وہ ریلیف نہیں مل سکا جس کی توقع کی جا رہی تھیوائس آف امریکہ کے لیے اپنی رپورٹ میں اکمل دعویٰ نے بتا یا ہے کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے گزشتہ دہائیوں کے دوران افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور ساز وسامان کی فراہمی پر 80ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے تھے لیکن جب گزشتہ برس امریکی افواج افغانستان سے نکلیں تو یہ فوج اور پولیس منتشر ہوکر رہ گئی تھی۔افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اگلے ماہ کانگریس میں یہ رپورٹ پیش کریں گے کہ ان کے ساز و سامان کا کیا ہوا۔ پچھلے ہفتے سوپکو نے وی او اے کی افغان سروس کو بتایا تھا کہ وہ ان رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ طالبان حکام بین الااقوامی مارکیٹ میں یہ اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔
طالبان حکومت کے پہلے چھ ماہ
طالبان کا ایک لاکھ دس ہزار افراد پر مشتمل فوج بنانے کا اعلان کردہ ہدف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب انھیں افغانستان کا کنڑول حاصل کیے چھ ماہ مکمل ہوگئے ہیں۔اس کے بعد کے مہینوں میں طالبان نے افغانستان کو کئی طریقوں سے تبدیل کر دیا ہے، جس میں اس کےسرکاری نام کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کو اب تک زیادہ تر ان طریقوں کی واپسی کے طور پر دیکھا جا رہاہے جو 90 کی دہائی میں، جب اس کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس گروپ نے اپنائے تھے۔ یہ زیادہ تر ایک جابرانہ حکومت کے طور پر رپورٹ ہوتے ہیں جو اپنے ہی لوگوں اور بقیہ دنیا سے متصادم ہیں، لیکن چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس جنگ زدہ ملک میں اہم کامیابی ملی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ ،آئی سی جی کے مشیر گریم اسمتھ نے وی او اے کو بتایا کہ طالبان کی عبوری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی افغانستان کے بیشتر حصے میں امن و امان کا قیام ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اطلاعات تک رسائی میں سنگین خلا موجود ہے اور ہمارے پاس واقعات کے بارے میں تمام ضروری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں کسی بھی عرصے کے مقابلے میں تشددکے کم واقعات ہوئے ہیں۔
اقتدار پر قبضے سے پہلے ، طالبان جنگجو ہر سال ہزاروں حملوں اور چھڑپوں میں حصہ لیتے تھے ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں طالبان کے حملوں میں کم از کم 699 شہری ہلاک اور 1345 زخمی ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے ابھی تک اپنی 2021 کی رپورٹ جاری نہیں کی ہے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ طالبان کے ملک کا کنڑول سنبھالنے کے بعد سے تنازعوں میں ہونےوالے جانی نقصانات میں کس طرح کی تبدیلی آئی ہے۔
ایک اور پیمانہ جو اس بات کی پیمائش کرتا ہے کہ تشدد افغانستان میں خیراتی اداروں اور ٖغیر منافع بخش گروپوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے، اس میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جنوری 2021 میں بین الااقوامی این جی اوز اور سیفٹی آرگنائزیشن نے امن و امان کے 25 واقعات کی اطلاع دی تھی, جس میں 2 غیر سرکاری کارکن ہلاک، 8 زخمی اور 3 اغوا ہوئے تھے ۔ جنوری 2022 میں سیفٹی آرگنائزیشن نے13 واقعات کی اطلاع دی, جس میں کوئی ہلاک ، زخمی یا اغوا نہیں ہوا۔
افغانستان اب بھی پرامن ملک کہلانے سے کوسوں دور ہے۔ متعدد رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال اگست سے اب تک اسلامک اسٹیٹ گروپ کے حملوں میں 500 سے زائد افغان شہری ، جن میں اکثریت کا تعلق مذہبی شیعہ اقلیت سےہے، ہلاک ہوچکے ہیں۔
جمہوریت سے امارات تک
اقتدار سنبھالنے کے بعد ریفرنڈم یا انتخابات کے بغیر ہی طالبان نے فوری طور پر افغانستان کے آئینی جمہوری نظام کو بدل دیا ہے، جسے اس ملک نے 2002 میں اپنایا تھا اور دنیا نے اسے تسلیم کیا تھا۔ افغانستان کے انتخابی اداروں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو تمام شہری اور سیاسی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور ملک کے تین رنگوں والے قومی پرچم کوطالبان کے سفید بینر سے بدل دیا گیا ہے ۔
طالبان رہنما ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کو حتمی اختیارات حاصل ہیں، بشمول سرکاری اہل کاروں اور ججوں کی تقرری اور یہ فیصلہ کرنے کے کہ خواتین اور اقلیتوں کو کیا حقوق دیے جائیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اخوندزادہ نے نہ تو قوم سے خطاب کیا اور نہ ہی عوام میں نظر آئے۔
ایک سابق افغان وزیر محمد عمر زاخیلوال ، جنھوں نے کابل میں طالبان کنڑول کے بعد ان کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی ، کا کہنا ہے کہ حکومت کے احتساب کے حوالے سے کوئی بات واضح نہیں ہے ۔ زاخیلوال نے وی او اے کو بتایا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت کی بنیاد کسی خاص آئین پر نہیں ہے۔جب کہ قانونی حیثیت کے لیے ایک آئین کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس گروپ نے خود کو بین الااقوامی سطح پر بھی مستحکم کرنے کی جدوجہد کی ہے ۔اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد طالبان ابھی تک اپنی اسلامی امارات کو کسی بھی حکومت سے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کراسکے۔ آئی سی جی کے اسمتھ نے کہا کہ طالبان کی سب سے بڑی غلطی بیرونی ممالک کے ساتھ تعاون کی راہیں تلاش کرنے میں ان کی ناکامی ہے۔
ایک جامع حکومت کی تشکیل، خواتین کے حقوق کا احترام خصوصی طور پر ان کی تعلیم اور کام کرنے کا حق، وہ چند اہم مسائل ہیں، جن کا مطالبہ بہت سے ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے کیا ہے۔
ایک تاریک سال
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تیزی سےمعاشی تباہی ، انسانی بحران اور پورے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ افغان شہریوں کی ایک بڑی اکثریت کا کہنا ہےکہ ان کے حالات زندگی بدترین سطح سے بھی نیچے آگئے ہیں،اوروہ شدید تکالیف اور مسائل کا شکار ہیں"۔
ایک سابق افغان سفارت کار اسیلہ واردک نے ، جو ان دنوں امریکہ میں رہائش پذیر ہیں، کہتی ہیں کہ سال 2022 افغان خواتین کے لیے سیاہ ترین سال ہو گا ۔ متعدد رپورٹوں کے مطابق انتہائی غربت اور بیروزگاری کے باعث بہت سی افغان خواتین بھیک مانگنے اور اپنے اعضا فروخت کرنے پر مجبور ہو۔گئی ہیں۔وردک کہتی ہیں کہ پورے افغانستان میں اگر خواتین سڑکوں پر بھیک مانگ سکتی ہیں تو وہ دفاتر میں کام کیوں نہیں کرسکتیں؟
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط تک لڑکیوں اور خواتین کےاسکول اور یونیورسٹی کھل جائیں گے ۔ لیکن انھوں نے خواتین کے سیاسی حقوق اور سرکاری دفاتر میں ان کی واپسی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔
زاخیلوال کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ آنے والےمہینوں میں بھی طالبان اپنی حکومت کا ایسے ہی دفاع جاری رکھیں گے اور صرف معمولی لچک کا ہی مظاہرہ کریں گے۔