افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نےطالبان حکمرانوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے جس کے تحت اس نے افغانستان کے منجمداثاثوں میں سے نصف کو 11 ستمبر 2001 کی دہشت گردی کے متاثرین کے لواحقین کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حامد کرزئی نے اتوار کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام11 ستمبر کے سانحے میں جان سے جانے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن یہ بات پیشِ نظر رہے کہ افغان عوام بھی(دہشت گردی کے) اتنےہی متاثر ہوئے ہیں جتنے وہ خاندان جن کے پیاروں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ان کے بقول متاثرین کے نام پر افغان عوام کی رقم روکنا یا اسے ضبط کرنا نا انصافی ہے اور یہ افغان عوام کے خلاف ظلم ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک ’دا افغانستان بینک‘ نے نیویارک کے امریکی فیڈرل ریزرو بینک میں فنڈز جمع کر رکھے تھے۔ لیکن یہ رقم اگست میں امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے کنٹرول کے بعد منجمد کردی گئی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغان فنڈز کو منجمد کرنے سے تنازعات کے شکار ملک میں پہلے ہی سے خراب انسانی صورتِ حال مزید بد تر ہو گئی ہے اور غیرملکی امداد پر انحصار کرنے والی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
خیال رہے کہ جمعے کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھاجس میں بینکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں انسانی امداد کے لیے ٹرسٹ فنڈ میں منجمد اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر مختص کریں جبکہ باقی ساڑھے 3 ارب ڈالر، امریکہ میں دہشت گردی کا شکار امریکی متاثرین کے مقدمات کے سلسلے میں ادائیگیوں کے لیے امریکہ ہی میں رہیں گے۔
حامد کزرئی کا کہنا تھا کہ امریکی عدالتوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اس اقدام کے برعکس فیصلہ دیں اور افغان عوام کو ان کی رقم واپس کریں۔اس رقم پر کسی حکومت کا حق نہیں ہے۔
ان کے بقول اس رقم میں سے زیادہ تر ان کے دور میں جمع ہوئی تھی اور یہ افغان عوام کی ملکیت ہے۔
حامد کرزئی دسمبر 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور وہ دسمبر 2001 سے لے کر 13 سال تک افغانستان کے صدر رہے۔ کرزئی 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد امریکی قیادت میں افغانستان میں ہونے والی فوجی مداخلت اور طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے کچھ عرصے بعد صدر بنے تھے۔
اگست 2021 میں کابل سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد واشنگٹن اور عالمی برادری نے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صد ر بائیڈن کا ایگزیکٹو آرڈر کا مقصد افغانستان کے لوگوں تک فنڈز پہنچانےکے لیے راستہ فراہم کرنا ہے۔ اور اس رقم کو طالبان کے بدنیت کارندوں کے ہاتھوں سے دور رکھنا ہے۔
دوسری جانب طالبان حکام نے یک طرفہ امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ’’ کسی ملک اور قوم کی اخلاقیات اور انسانیت کی پست ترین سطح کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘