امریکی محکمۂ دفاع کے افغان مشن پر نظر رکھنے والے انسپکٹر جنرل کے دفتر کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے سال 2021 کے پہلے تین ماہ کے دوران امریکہ سے ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے امریکی اور اتحادی افواج پر حملے نہیں کیے، لیکن افغان عوام اور افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ طالبان نے دہشت گرد گروپ القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط بھی برقرار رکھے ہیں اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی جاری رکھی ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہوتا رہا ہے، جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن بات چیت کسی پیش رفت کی طرف بڑھنے میں ناکام نظر آرہی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان ممکنہ طور پر افغان آبادیوں کے گڑھ اور سرکاری فوج کے خلاف کسی بڑی کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ سال کی ابتدائی سہ ماہی میں افغان شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے، جن میں سرکاری افسران، اساتذہ، صحافی ، طبی عملے کے ارکان، اور مذہبی رہنما شامل تھے۔
اگرچہ طالبان ان کارروائیوں کی زمہ داری قبول نہیں کرتے، امریکی اور افغان حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ افغان عوام کو خوفزدہ کرنے اور افغان حکومت کے بارے میں بد اعتمادی پیدا کرنے کے لئے ایسے اقدامات کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوں جوں افغانستان میں تشدد بڑھتا رہا، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات پر کام کرنے والی ٹیمیں کسی بامعنی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہیں۔
فروری 2020 میں طالبان نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ مارچ میں بات چیت شروع کریں گے، لیکن امن بات چیت ستمبر 2020 تک شروع نہیں ہو سکی تھی، جبکہ بات چیت کے طریقہ کار کے بارے میں بنیادی ضوابط دسمبر 2020 تک طے نہیں پائے تھے۔
رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے عبوری سربراہ انسپکٹر جنرل شان ڈبلیو او ڈونل نے رپورٹ کے ابتدایئے میں لکھا ہے کہ مارچ 2021 کی سہ ماہی کے اختتام تک، دونوں فریقوں نے امن بات چیت کے لئے کسی ایجنڈے کو حتمی شکل نہیں دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد طالبان کی جانب سے افغان عوام اور افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تاریخی اضافہ ہوا، خصوصا 2021 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ہونےو الے حملوں کی تعداد 2020 کے ابتدائی تین ماہ میں ہونے والے حملوں سے 37فیصد زیادہ تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران ان حملوں کی تعداد 10431 تھی جب کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران یہ بڑھ کر 11551 تک پہنچ گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ روز امریکی کانگریس کی امور خارجہ کمیٹی کے سامنے ہونے والی ایک سماعت کے دوران افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ افغان طالبان کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن کا راستہ اختیار کریں، اور ایک متشدد بغاوت میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے ایک سیاسی تحریک بنائیں اور ایک ایسے ملک کا حصہ بنیں، جسے عالمی برادری میں احترام دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر طالبان نے عسکری قوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ اختیار کیا تو پھر ان پر پابندیاں عائد ہوں گی، وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائیں گے، انہیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مخالفت کا سامنا ہو گا۔
زلمے خلیل زاد نے اس سے قبل امریکی کانگریس کی ایک اور سماعت میں بتایا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ مل کر پاکستان اور افغانستان کے مابین سیکیورٹی تعاون کو بہتر کرنے کے لیے کام کررہے ہیں، جو امریکہ کی امن کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ ان کےبقول اس کے نتیجے میں، اسلام آباد اور کابل کے دوران سیکیورٹی معاہدے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔مگر امریکہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ایسا سیکیورٹی بندوبست کارگر نہیں رہے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایسا سیکیورٹی بندوبست پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے نہیں روک پائے گا۔
اس سیکیورٹی معاہدے کا مقصد، تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کی اس دیرینہ تشویش کو دور کرنا ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین اسلام آباد کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔ سابق سفیر اور تجزیہ کار حسین حقانی کے مطابق پاکستان ابھی بین الاقوامی برادری کو قائل نہیں کر سکا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہو۔