طالبان نے گزشتہ ماہ کابل پر قابض ہونے کے بعد متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ البتہ پاکستان میں حالیہ ہفتوں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
طالبان نے رواں ہفتے افغانستان میں اپنی عبوری حکومت کے قائم کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں بعض مبصرین کے خیال میں اسلام آباد کو یہ توقع ہے کہ افغان طالبان پاکستان مخالف ٹی ٹی پی کو سرحد پار عسکری کارروائیاں کرنے سے روک سکتے ہیں۔
سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی یقینی دہانی اور عزم کے باوجود پاکستان مخالف عناصر کو کسی بھی پرتشدد کارروائی سے روکنا چیلنج ہو گا۔ ان کے بقول افغانستان میں ایک مؤثر حکومت کی باقاعدہ عمل داری قائم ہونا ابھی باقی ہے۔ طالبان کو انسدادِ دہشت گردی کی محدود استعداد کار کا مسئلہ بھی درپیش ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تجزیہ کار اکرام سہگل نے کہا کہ ان توقعات کی راہ میں کئی مشکلات بھی حائل ہیں جن میں نظریاتی طور پر بعض معاملات میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی قربت شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان نے سوات اور افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی آپریشن کیا تو ٹی ٹی پی کے شدت پسند فرار ہو کر افغانستان چلے گئے اور ان میں سے کئی ایک افغان طالبان کی حمایت کرتے رہے۔
اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ طالبان کی قیادت اگرچہ ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کے تحفظات کو سمجھتی ہے اور وہ اسلام آباد کو اطمینان دلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ البتہ طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کسی عسکری کارروائی کے لیے قائل کرنا مشکل ہو گا۔
پاکستان کے کئی بار مطالبہ کرنے کے باوجود سابق افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کرتی رہی تھی۔ اس وقت کی افغان حکومت کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کو نہ صرف پناہ دی ہوئی ہے بلکہ ان کی کھل کر حمایت بھی کی ہے۔ اگرچہ اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اکرام سہگل کے مطابق ماضی میں افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف عسکری کارروائی سے گریز کرتی رہی ہے۔ اب طالبان کی حکومت کے لیے بھی ایسی کوئی کارروائی کرنا آسان نہیں ہے۔ اسلام آباد اور افغان طالبان کے درمیان ٹی ٹی پی کے معاملے پر اختلاف بھی سامنے آ سکتا ہے۔ طالبان ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان کے حوالے نہیں کرے گی کیوں کہ ایسا کرنا ان کی روایت نہیں ہے۔ شاید ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے قیادت کو حراست میں لیا جائے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اور پاکستان پالیسی انسٹیٹیوٹ سے وابستہ فوج کے سابق بریگیڈیئر سید نذیر کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کے معاملے میں شاید جلدی کر رہا ہے۔
بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سائد نذیر کا کہنا تھا کہ طالبان کی توجہ اپنی حکومت کے قیام کی امور کی طرف ہے جب ان کی مؤثر حکومت قائم ہو جائے گی اور اسے بین الاقوامی برداری تسلیم کر لے گی تو پھر ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بیرونی عناصر کو اپنی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے حالیہ دنوں میں کابل کا دورہ کیا ہے جس میں انہوں نے طالبان حکام سے بات چیت کی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سے آئے ہوئے وفد نے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان میں عسکری کارروائیوں میں ملوث قیدیوں کی رہائی پر اسلام آباد کی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی قیادت میں افغانستان جانے والے وفد نے طالبان کے سامنے تشویش کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار سائد نذیر کا کہنا ہے کہ افغان طالبان شاید یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے معاملے کو حل کرنے لیے ایسے افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کرے جو شدت پسندی چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہیں۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید پاکستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند عناصر کی کارروائیوں میں تیزی آ سکتی ہے۔
تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ ایسے عناصر سے نمٹنے کے لیے کابل سے تعاون کے ساتھ ساتھ پاکستان کو تیار بھی رہنا ہو گا۔ افغانستان سے متصل علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں انسدادِ دہشت گردی کے انتظام کار کو مؤثر بنانا ہو گا۔