پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان طالبان سے بات چیت کا آئندہ دور اگلے ہفتے اسلام آباد میں ہو گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام ِامن کے لیے ہر ممکن کردار ادا کر رہا ہے۔
فواد چودھری کا یہ بیان افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی دعوت پر امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا ایک دورہ آئندہ ہفتے اسلام آباد میں ہو گا۔
ترجمان نے کہا تھا کہ اس موقع پر طالبان کا وفد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کرے گا۔ تاہم امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو کسی بات چیت کے لیے باضابطہ کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی ہے۔
فواد چودھری نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ خطہ دو دہائیوں سے جنگ اور بدامنی کا نشانہ بنا ہوا ہے، لیکن پاکستان نے افغان تنازع کے حل کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اب ایک گیم چنجر کی بات ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے کے مذاکرات میں پہلی بار افغانستان میں استحکام آنے کا امکان ہے۔’’
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں مذاکرات ہو رہے ہیں اور طے شدہ سمجھوتے کے مطابق مذاکرات کا اگلا دور 25 فروری کو دوحہ میں ہو گا۔
تاہم افغان طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کی دعوت پر مذاکرات کا ایک دور 18 فروری کو اسلام آباد میں ہو گا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اس سے قبل قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں مذاکرات کے بعد 25 فروری کو دوبارہ دونوں فریق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مزید بات چیت کریں گے‘‘۔
ترجمان کے مطابق، ’’اس ملاقات میں پاک افغان تعلقات کے ساتھ ساتھ افغان پناہ گزینوں اور افغان تاجروں کے مسائل پر بھی بات چیت کی جائے گی‘‘۔
دوسری جانب امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو تاحال مذاکرات کی باضابطہ دعوت موصول نہیں ہوئی۔
تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ ان تمام اقدامات کی حمایت کرتا ہے جو تمام افغانوں بشمول افغان حکومت کے درمیان بات چیت کا سبب بنیں۔
ترجمان نے کہا کہ مذاکرات ایک طویل عمل ہے جو امریکہ غیر سرکاری چینلز کے ذریعے جاری رکھے گا۔
امریکی نمائندہٴ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد اس وقت چھ ملکی دورے پر ہیں جس میں وہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ یورپی ممالک کا بھی دورہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کل جرمنی میں افغان صدر اشرف غنی سے متوقع ہے۔
یادر رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر اور متحدہ عرب امارت میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان حال ہی میں ماسکو میں افغان حزب اختلاف کے کئی اہم رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر چکے ہیں۔
سلامتی سے متعلق امور کے ایک تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے سابق عہدے دار امجد شعیب نے جمعرات کو وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان، امریکہ کے ساتھ جاری بات چیت میں پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کو اعتماد میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ادھر طالبان نے منگل کے روز 25 فروری کو دوحہ بات چیت کے لیے اپنی 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا، جس کی سربراہی شیر محمد عباس ستانکزئی کریں گے، جس میں گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز میں قید کاٹنے والے سابق پانچ طالبان بھی شامل ہیں جنھیں امریکی سارجنٹ بووی برگڈہل سے تبادلے میں 2014ء میں رہا کیا گیا تھا۔ سارجنٹ 2009ء میں اپنے مرکز سے بھٹک گئے تھے اور اُنھیں طالبان نے پکڑ لیا تھا۔
’ایسو سی ایٹڈ پریس‘کی ایک رپورٹ کے مطابق، وفد میں انس حقانی بھی شامل ہیں، جو حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کے چھوٹے بھائی ہیں، جو طالبان کا ایک طاقتور دھڑا ہے۔