افغانستان میں طالبان کی حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اسے امریکہ میں منجمد افغان اثاثے وصول نہیں ہوتے تو امریکہ کے بارے میں اپنی پالیسی پر 'دوبارہ غور' کیا جائے گا۔
افغانستان کے اسلام پسند حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ امریکہ میں منجمد کیے گئے سات ارب ڈالر کے تمام اثاثے واپس کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو وہ امریکہ سے متعلق اپنی پالیسی پر "دوبارہ غور" کریں گے۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ جمعہ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس میں بینکوں سے کہا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں انسانی امداد کے ٹرسٹ فنڈ کے لیے منجمد اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر مختص کر دیں، جب کہ بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے فنڈز امریکہ میں دہشت گردی کے شکار امریکی متاثرین کو ادائیگیوں کے لیے رکھے جائیں گے جن میں خاص طور پر 11 ستمبر 2001 کو واشنگٹن، ڈی سی اور نیو یارک سٹی پر ہونے والے حملوں کے متاثرین کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدموں میں عدالتوں کی طرف سے ادائیگیوں کے احکامات کی تعمیل کے لیے امریکہ میں محفوظ رہیں گے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے پیر کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ 11 ستمبر کے حملوں کا "افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔"
بقول ترجمان، ''اگر امریکہ اپنے مؤقف پر قائم رہتا ہے اور اپنی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری رکھتا ہے تو امارت اسلامیہ بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گی''۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے وقت طالبان حکومت تھی
گیارہ ستمبر 2001 کو جب امریکہ پر دہشت گرد حملے ہوئے تو اس وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن تھا جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا سربراہ بھی تھا۔طالبان نے اسے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔
دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے طالبان سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھاجسے طالبان نے ماننے سے انکار کر دیا، جس کے چند ہی ہفتوں کے بعد امریکی قیادت کے اتحاد نے حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
بحران سے نمٹنے کے لیے منجمد اثاثے جاری کیے جائیں، طالبان
طالبان اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان کے بیرونی ملکوں میں موجود منجمد اثاثے واگزار کر دیے جائیں تاکہ ان کی مدد سے ملک میں جاری معاشی بحران، سرمائے کی قلت اور بھوک کے مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔
SEE ALSO: افغانستان میں طالبان حکومت کے چھ ماہ: کیا پاکستان کی توقعات پوری ہوئیں؟مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ طالبان نے عالمی برادری سے کیے جانے والے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جن کا تعلق وسیع البنیاد حکومت کے قیام اور خواتین اور اقلیتوں کو مسادی حقوق کی فراہمی سے ہے، اس لیے ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ، جو منجمد اثاثے واگزار کیے جانے اور ضرورت مند افغان باشندوں کی امداد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
تاہم کئی امدادی گروپس طالبان کو شامل کیے بغیر افغانستان میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں مسائل بہت زیادہ اور گمبھیر ہیں، جس کی وجہ سے طالبان حکومت اور ملک کے معاشی اداروں کی نظریں منجمد اثاثوں پر تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ان میں سے نصف فنڈز نائین الیون کےمتاثرین کی ادائیگیوں کے لیے روک لینے کے فیصلے پر طالبان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کاروباری حلقوں نے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
نصف فنڈز روکنے کے خلاف مظاہرے
وائس آف امریکہ کی افغان سروس نے بتایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف منگل کے روز کابل اور کئی دوسرے شہروں میں سینکڑوں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے صدر بائیڈن سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔افغان منی ایکس چینج یونین نے بھی اس فیصلے کے خلاف کابل اور کئی دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے امریکی انخلا سے تقریباً 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ ئے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگوں نے افغانستان کی معیشت کو تباہ کر دیا اور آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا۔
افغانستان کو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے۔ اس بحران کا آغاز تقربیاً 40 سال قبل افغانستان پر روس کے حملے سے ہوا تھا اور پھر روس کے انخلا کے بعد قائم ہونے والی طالبان کی دنیا سے الگ تھلگ حکومت اور اس کے بعد امریکی قیادت کی سرپرستی میں بننے والی افغان حکومت کے دور میں جاری لڑائیوں، خانہ جنگیوں، دیگر تنازعات اور قدرتی آفات نے انسانی بحران کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، اس وقت ملک کی نصف سے زیادہ غربت زدہ آبادی، یا تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ افغان باشندوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور اس سال کے آخر تک پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ 10 لاکھ بچے بھوک اور خوراک کی قلت کے باعث ہلاک ہو سکتے ہیں۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)