تھری خواتین کا انتخابی دنگل میں مردوں سے مقابلہ

تھری خواتین (فائل فوٹو)

​​تھر کے دیہی علاقے ’میمن جوتڑ‘ تعلقہ اسلام کورٹ کی رہائشی سنیتا میگھواڑ بھی پہلی مرتبہ جولائی کے انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں۔

تھر صوبہ سندھ کا سب سے پسماندہ ضلع ہے ۔یہاں تعلیم، خوراک، پانی اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی کمی ہے۔ غربت اور بدحالی نے سالہا سال سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جب کہ موسم کی ستم ظریفیاں بھی کچھ کم جان لیوا نہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات ہوں یا ماضی کے الیکشنز، ان میں غریب اور ہاری خواتین اپنے حقوق، مسائل کے حل اور عوام کی زندگی بہتر بنانے کے لیے آگے آتی رہی ہیں۔

تھر کے دیہی علاقے ’میمن جوتڑ‘ تعلقہ اسلام کورٹ کی رہائشی سنیتا میگھواڑ بھی پہلی مرتبہ جولائی کے انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں۔

انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 56 اسلام کوٹ سے انتخاب لڑنے کے لیے نامزدگی فارم حاصل کرلیا ہے۔

سنیتا میگھواڑ کا کہنا ہے، "انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میرے گھر والوں اور برادری نے حوصلہ افزائی کی تاکہ میں انتخابات جیت کر تھرپارکر کی عورتوں کے مسائل حل کرسکوں۔"

سنیتا کا تعلق ہندو مذہب کی میگھواڑ برادری سے ہے۔ ان کی عمر 30 سال ہے۔ ان کا پورا نام سنیتا پرمار میگھواڑ ہے۔

ہندو مذہب میں مروج ذات پات کے نظام کے تحت میگھواڑوں کو ’اچھوت‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ پہلی ایسی خاتون ہیں جنہوں نے تھرپارکر کے جاگیردارانہ نظام کو چیلنج کیا ہے۔

سنیتا کا آبادی علاقہ اسلام کوٹ ہندو اکثریتی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ سن 2017ء کی مردم شماری کے مطابق تھرپارکر کی کل آبادی 16 لاکھ ہے جن میں سے نصف آبادی ہندوؤں کی ہے جن میں میگھواڑ، بھیل اور کوہلی برادری کا ووٹ بینک دوسروں کے مقابلے میں 70 فی صد ہے۔

یہ لوگ خاموشی پسند ہیں اور ان میں سے اکثریت اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا نہیں جانتی۔ لیکن اس برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ دل سے تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔

گزشتہ ہفتے سنیتا نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا انہوں نے جس میں تھری خواتین کی حالتِ زار کا ذمہ دار سندھ کی حکمراں جماعتوں کو ٹہرایا تھا۔

اپنے پیغام میں سنیتا نے کسی بھی جماعت کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ کبھی گندم کی بوریوں کے نام پر تو کبھی سلائی مشین اور کبھی مالی تعاون کی اسکیموں کے نام پر تھری خواتین کو بے عزت کیا جاتا رہا ہے۔

ان کے بقول ایک جانب ان اسکیموں کو غریبوں کی مدد کے لیے شروع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو دوسری جانب گندم کے ایک تھیلے کے لیے خواتین کو بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔

تھر، حوصلہ مند خواتین کا زرخیز خطہ

تھری خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے والی سنیتا واحد مثال نہیں۔

ویرو کولہن

ان سے قبل 2013ء کے عام انتخابات میں بھی تھر کی ایک اور رہائشی ہندو ہاری خاتون ویرو کولہن بھی پی ایس 50 سے انتخاب لڑ چکی ہیں اور وہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کے خلاف۔

ویرو نجی جیل بھی کاٹ چکی ہیں اور اسی لیے انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ اگر وہ جیت گئیں تو غریب ہاریوں اور نجی جیلوں میں قید افراد کی رہائی کے لیے کام کریں گی۔

تھر پارکر سے سینیٹر منتخب ہونے والی کرشنا کوہلی

کرشنا کوہلی
اس بار جولائی کے انتخابات کے اعلان سے کچھ قبل ہی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی نہایت غریب خاندان کی رکن کرشنا کوہلی پہلی مرتبہ سینیٹر بنیں تو تھری خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مزید خواتین کی بھی سیاست میں آنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ کرشنا تھری خواتین کے لیے ایک ’رول ماڈل‘ اور مثال بن چکی ہیں۔

تھر کی ڈمپر ڈرائیور گلابن

گلابن
تھر کی حوصلہ مند خواتین میں سے ایک گلابن بھی ہیں جو کوئلے کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والا بھاری ڈمپر چلاتی ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جو اب تک صرف مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ مگر گلابن نے اس روایت کو توڑ دیا ہے۔ وہ 60 ٹن کا ڈمپر اسی مہارت سے چلاتی ہیں جس مہارت سے ایک مرد ڈرائیور اسے چلاتا ہے حالاں کہ ان کی عمر صرف 25 سال ہے۔

گلابن تین بچوں کی ماں ہیں اور ان کا تعلق بھی تھر کی آباد ہندو برادری سے ہے۔ وہ ڈمپر کے ساتھ ساتھ کار چلانا بھی جانتی ہیں۔ ان کے بقول کار چلانے کی تربیت انہوں نے پہلے لی تھی اور بعد میں ڈمپر چلانا سیکھا۔

تھر کی ایسی ہی 30 دیگر خواتین ’سندھ ایگرو کول مائننگ کمپنی‘ میں ڈمپر چلانے کی تربیت حاصل کرچکی ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون رامو ہیں جو چھ بچوں کی ماں ہیں اور 40 ٹن کا ڈمپر ٹرک چلاتی ہیں۔

رہی بات دیگر ہزاروں خواتین کی تو وہ گھر داری کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ شب و روز زراعت سے جڑے وہ تمام کام کرتی ہیں جو مرد کرتے ہیں۔

کرن سدھو وانی
کرن کا تعلق بھی تھر سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور سندھ تھر کول مائننگ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے جسے چین کا مالی تعاون حاصل ہے۔ انہیں تھر پارکر کی پہلی خاتون انجینئر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔