پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق ایک ادارہ سندھ کےپسماندہ صحرائی اور ساحلی علاقوں کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی ،سایہ دار درختوں کی چھاؤں، سولر بجلی کی روشنی، کی فراہمی میں مدد دینے، اور انہیں اپنی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر بنانے کے ہنر سکھا کر ان کی خزاں رسیدہ زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہے۔
قومی اور بین الاقوامی سطح کا یہ غیر سرکاری ادارہ ہے سوسائٹی فار کنزرویشن اینڈ پروٹیکشن آف اینوائرنمنٹ، یعنی اسکوپ، جس کے کام کا اسکوپ پاکستان کے قدرتی وسائل، جنگلات، جنگلی حیات کے تحفظ سے لے کر آب و ہوا اور سخت موسموں سے متاثرہ لوگوں کی زندگیوں کی سختیوں کو کم کرنے ‘ماحول کے تحفظ کے بارے میں آگاہی کی مہموں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں خاص طور پر سندھ کے پس ماندہ صحرائی اور ساحلی علاقوں میں قومی اور بین الاقوامی اداروں اور مقامی کمیونٹیز کی مدد سے ماحولیات کی بہتری سے متعلق ایک سو سے زیادہ پراجیکٹ مکمل کر چکا ہے۔ جب کہ وہ اقوام متحدہ کے ساتھ ماحولیات ے متعلق امور پر ایک مشاورتی ادارے کے طور پر منسلک ہو چکا ہے۔
اسکوپ کے فاؤنڈر اور سی ای او تنویر عارف نے وائس آف اردو سروس کے پروگرام دم رواں ہے زندگی میں اپنے ادارے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ زمین کو زندگی قرار دیتا ہے اور اس زندگی کی حفاظت کے ذریعے اس کے لوگوں کی حفاظت کو ممکن بنانے کی کوشش کرتا ہے اور زیادہ تر سندھ کے صحرائی اور ساحلی علاقوں کی زمینوں اور ماحول کے ساتھ ساتھ وہاں کے مکنیوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے کام کرتا ہے۔
تنویر عارف نے کہا کہ تھر کے لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی ہے اس مسئلے کے حل میں مدد کے لیے اسکوپ دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر متعدد پراجیکٹس کر چکا ہے جن میں کنوؤں کی کھدائی اور سولر ہینڈ پمپس اور پانی کو ذخیرہ کرنے والے تالاب شامل ہیں۔ جب کہ اسکوپ کا ایک اور اہم پراجیکٹ تھری ویمن پراجیکٹ ہے جس کے تحت وہ تھر کے درختوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تھر کی خواتین کو معاشی طورپر مستحکم کرنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔
تنویر عارف نے کہا کہ تھر کے علاقے میں قیمتی درختوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے انہوں نے مقامی رضاکاروں کی ایک فورس گرین گارڈز کے نام سے تشکیل دی جب کہ تھر کی خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے سے متعلق ایک بڑے پراجیکٹ کااہمتام کیا ، تھری ویمن پراجیکٹ کے نام سے۔
تنویر عارف نے کہا کہ برطانیہ کے ادارے بائیو کلا ئمیٹ اور اسکاٹ حکومت کے تعاون سے چلنے والے اس پراجیکٹ کے تحت تھر کی خواتین کو علاقے میں موجود گوند کے ایک جھاڑی نما قیمتی درخت گگل کی کاشت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انہیں روزانہ کی بنیاد پر مشاہرہ دے کر اپنے علاقے میں اس درخت کی کاشت پر آمادہ کیا اور انہیں یہ اجازت دی کہ پانچ سال کے بعد جب وہ درخت بڑھ جائے تو اس کی گوند ان کی ملکیت ہو گی جسے فروخت کر کے وہ اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
تنویر عارف نے کہا کہ تھر کے علاقے میں ایک اور قیمتی درخت کنڈی کی حفاظت کے لیے بھی تھر کی خواتین کو شامل کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ کنڈی کا پودا بھی ایک بہت مفید پودا ہے جسے زندگی بچانے کا ایک پودا سمجھا جاتا ہے اور خاص طور پر جانوروں کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے یا مندروں اور خانقاہوں میں خوشبو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس درخت کو درخت مافیا سے بچانے کے لیے تھر کی ہندو خواتین ہر سال راکھی کے موقع پر ان کے ساتھ راکھی کا بندھن باندھتی ہیں ۔ وہ ان درختوں کو اپنا بھائی قرار دیتی ہیں کیوں کہ وہ ان کی زندگی کی حفاظت بھائیوں کی طرح کرتے ہیں۔
تنویر عارف نے کہا کہ تھری ویمن پراجیکٹ کا جو تھر کی خواتین کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا ایک ذریعہ بن رہا ہے، اب تھر کی خواتین کو کچن گارڈننگ کی تربیت دے کر انہیں اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے مواقع فراہم کر ر ہا ہے۔