طالبان دن بدن خواتین پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں .وہ صرف خواتین کو ہدف کیوں بنارہے ہیں؟ یہ سوال تھا کابل میں ایک بیوٹی سیلون کی مالک کا جو طالبان کی جانب سے خواتین کے بیوٹی سیلونز پر پابندی کےایک تازہ حکم نامے پر رد عمل کا اظہار کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ” کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ کیا ہمیں کام کرنے اور زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ؟”
طالبان کے اس حکم نامے کے بارے میں بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان محمد صدیق عاکف مہاجر نے منگل کے روز کہا کہ طالبان افغانستان میں خواتین کےبیوٹی سیلونز پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔
افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم ،عوامی مقامات پر آ مدو رفت اور بیشتر قسم کی ملازمتوں پر پابندی کے حکم ناموں کے بعد یہ ان کے حقوق اور آزادیوں کو کچلنے کا ایک تازہ ترین اقدام ہے ۔
ترجمان ، محمد صدیق عاکف مہاجر نے پابندی کی تفصیلات نہیں فراہم کیں ۔ انہوں نے صرف سوشل میڈیا پر گردش کرنے والےایک خط کی تصدیق کی ۔
وزارت نے یہ خط 24 جون کو جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کا ایک زبانی حکم نامہ پہنچا رہی ہے۔
اس پابندی کا ہدف دارالحکومت کابل اور تمام صوبے ہیں اور ملک بھر کے تمام بیوٹی سیلونز کو اپنے کاروبار سمیٹنے کے لیے ایک ماہ کا نوٹس دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد انہیں اپنے کاروبار لازمی طور پر بند کرنا ہوں گے اور اس بارے میں ایک رپورٹ درج کرانا ہوگی ۔
خط میں پابندی کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں ۔
اس پابندی پر انسانی اور خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: طالبان کا افغانستان میں بیوٹی سیلون بند کرنے کا حکم
اقوام متحدہ نے بھی منگل کے روز کہا کہ وہ افغانستان میں حکام پربیوٹی سیلونز پر پابندی کا فیصلہ منسوخ کرنے پر زور دینے کےلیے ان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یا یوناما نے طالبان پر فیصلے کو روکنے پر زور دینے کے لئے ٹویٹر پر کہا ،“ خواتین کےحقوق پر یہ نئی پابندی معیشت کو منفی طور پر متاثر کرے گی اور یہ کاروباری خواتین کے لئے بیان کردہ مدد سے متصادم ہے ۔”
ایسو سی ایٹڈ پریس نے کابل میں بیوٹی سیلون کی جس مالک سے بات کی اس نے بتایا کہ وہ 2017 میں ایک کار بم دھماکے میں اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد سے اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں۔ وہ کسی انتقامی کارروائی کے خوف سےاپنے سیلون کا نام نہیں بتانا چاہتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے سیلون میں روزانہ 8 سے 12 خواتین آتی ہیں ۔
طالبان نے اپنے ان ابتدائی وعدوں کے باجود کہ وہ 1990 کےعشرے کے اپنے سابقہ دور اقتدار کی نسبت زیادہ اعتدال پسندی سے حکمرانی کریں گے ، اگست 2021 میں امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے سخت اقدامات نافذ کیے ہیں ۔
انہوں نے خواتین پر عوامی مقامات مثلاً پارکس اور جمز میں جانے پر پابندی عائد کر دی ہے اور میڈیا کی آزادیوں کو کچلا ہے ۔
ان اقدامات پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی ہے، اور ملک ایک ایسےوقت میں مزید الگ تھلگ ہو رہا ہے جب اس کی معیشت منہدم ہو چکی ہے اور ملک میں جاری انسانی ہمدردی کا بحران مزید بد تر شکل اختیار کر چکا ہے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اےپی سے لیا گیا ہے۔)